آل سعود کے اقتدار کا حرمین سے کوئی تعلق نہیں
سعودی کعبہ کے غلاف کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، علامہ محمد امین شہیدی
ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ حرمین کے نام اور کعبے کے غلاف کو آل سعود ہمیشہ بیچتے رہے ہیں، اب بھی اپنے مفادات کیلئے بیچ رہے ہیں، لیکن پوری دنیا کو پتہ چل چکا ہے، ان کے دل میں حرمین کیلئے نہیں بلکہ اپنے اقتدار کیلئے محبت ہے، حرمین کا درد ان کے دل میں کیسے پیدا ہوگیا، کیا ازواج رسول حرمین میں شامل نہیں ہیں، کیا صحابہ کرام اور اہلبیت (ع) کے مزارات حرمین میں شامل نہیں ہیں، کیا رسول کریم (ص) کی اپنی عبادت گاہ ، اور رسول کریم (ص) کے وہ آثار جو تاریخ میں سب سے زیادہ قیمتی تھے، تو انہیں منہدم کیوں کیا گیا۔
 
علامہ محمد امین شہیدی گلگت میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت سے حاصل کی۔ کوئٹہ سائنس کالج سے میڑک کیا اور 1984ء میں اعلٰی دینی تعلیم کے لئے ایران چلے گئے۔ ایران میں بارہ سال تک رہے، اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں کچھ دوستوں سے مل کر پاکستان کا رخ کیا، اسلام آباد میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور اس کے بعد سے دینی ترویج میں سرگرم عمل ہیں، اس وقت ایک ادارہ دانش کدہ اور ایک مرکز تحقیقات علوم اسلامی کے نام سے علوم اور معارف کی ترویج کے لئے تشکیل دیا تھا۔ ان اداروں سے اب تک لگ بھگ 50 کے قریب اسلامی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ 2008ء میں ملک کو درپیش مشکلات اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے فرقہ واریت کو فروغ ملا تو اس سے نجات کے لئے مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد رکھی گئی۔ 2008ء سے اب تک علامہ امین شہیدی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس وقت وہ اسلامی نظریانی کونسل کے بھی رکن ہیں۔ اسلام ٹائمز نے یمن کی صورتحال، تحفظ حرمین شریفین، پاکستان میں داعش کی فعالیت، گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انخابات سمیت چند دیگر اہم موضوعات پر ان سے ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو اسلام ٹائمز کے قارئین کے استفادے کیلئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: یمن کی صورتحال دن بدن گھمبیر ہوتی جا رہی ہے، سعودی عرب نے خلیجی ممالک کو ایران کیخلاف اقدام اٹھانے کا کہا ہے، آپ اس ساری صورتحال کو کس طرح سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: یمن تاریخی اعتبار سے ایک ایسے خطے پر مشتمل ملک ہے، جہاں پر ہمیشہ بحران رہے، جنگیں رہیں، تنازعات رہے، اس لئے اس خطے میں رہنے والے لوگوں میں حریت موجود ہے، بہادری اور شجاعت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، جنگجو قسم کے لوگ ہیں، حق پر مر مٹنے والے لوگ ہیں، باطل سے ہمیشہ ٹکرا جانے والے لوگ ہیں اور ویسے بھی وہاں کی بڑی آبادی حضرت زید ابن علی علیہ صلوۃ والسلام کی اولاد اور ان کے صلب میں سے ہیں، جو خود شہید اسلام ہیں، موجودہ صورتحال میں جب ہم یمن کے جغرافیائی حدود کے اندر آنے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یمن کی پوری آبادی کی ترجمانی یہی لوگ (حوثی) کر رہے ہیں، جنہوں نے یمن میں اصلاحات کا نعرہ
سعودیہ اس وقت جس خطے میں واقع ہے، اس کا اگر تھوڑا سا جغرافیائی تجزیہ کریں تو ایک طرف عراق ہے، وہاں پر ان کی سرحدوں پر داعش بیٹھی ہوئی ہے، داعش وہ ہے جو ان سعودیوں کی کمزوریوں کو بھی جانتی ہے اور اس کی طاقت سے بھی واقف ہے، چونکہ وہ ان کے اپنے کیمپوں میں پلے ہوئے لوگ ہیں، اس لئے ان کو پتہ ہے کہ سعودی آرمی کا کیلیبر کیا ہے، یہ سب ان کو معلوم ہے۔ دوسری طرف النصرہ ہے یا شام کے اندر وہ باغی ہیں جن کا بیج سعودیوں اور اسرائیلیوں نے بویا ہے، تیسری طرف یمن ہے، سعودیوں کو اپنے ہی بوئے ہوئے بیج کی فصل کاٹنی پڑ رہی ہے۔
بلند کیا، یمن میں جمہوری اقدار کے فروغ کی بات کی، یمن میں ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کی بات کی، یمن کے اردگرد کے ممالک کے اثر و رسوخ کو ختم کرکے یمن کو ایک خود مختار اور پرامن ملک بنانے کی کوشش کی، یمن کے اندر امریکہ اور اسرائیل کے اثر و رسوخ کے خاتمے کے بعد ایک ایسے ملک کے قیام کی بات کی اور ایسے نظام کی بات کی جو اپنے فیصلے خود کرسکیں گے، یہ وہ اقدار ہیں جس کے لئے جان دینا ہر قوم اپنے لئے باعث افتخار سمجھتی ہے، یہ اور بات ہے کہ سعودیوں کے مفادات امریکیوں اور اسرائیلیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، لہٰذا یمن کے اندر اگر کوئی اس طرح کی تبدیلی آتی ہے جس سے اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچتا ہے، امریکی مفاد کو نقصان پہنچتا ہے تو یقینی طور پر اس سے سعودی عرب بھی متاثر ہوتا ہے اور چونکہ یمن کا بارڈر سعودی عرب کے ساتھ لگتا ہے، اس لئے ان کو سب سے زیادہ خوف ہے۔

سعودیہ اس وقت جس خطے میں واقع ہے، اس کا اگر تھوڑا سا جغرافیائی تجزیہ کریں تو ایک طرف عراق ہے، وہاں پر ان کی سرحدوں پر داعش بیٹھی ہوئی ہے، داعش وہ ہے جو ان سعودیوں کی کمزوریوں کو بھی جانتی ہے اور اس کی طاقت سے بھی واقف ہے، چونکہ وہ ان کے اپنے کیمپوں میں پلے ہوئے لوگ ہیں، اس لئے ان کو پتہ ہے کہ سعودی آرمی کا کیلیبر کیا ہے، یہ سب ان کو معلوم ہے۔ دوسری طرف النصرہ ہے یا شام کے اندر وہ باغی ہیں جن کا بیج سعودیوں اور اسرائیلیوں نے بویا ہے، تیسری طرف یمن ہے، سعودیوں کو اپنے ہی بوئے ہوئے بیج کی فصل کاٹنی پڑ رہی ہے، ان کو یہ معلوم ہے کہ اگر اس خطے کے اندر ان کے ہمسایہ ممالک میں ان کی دشمن قوتیں برسرِ اقتدار آتی ہیں تو مستقبل میں ان سعودی ملوک اور شہنشاہوں کا کیا حال ہوگا، یہ سب ان کو پتہ ہے۔ اس لئے آخری کوشش کے طور پر وہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں، یمن پر وہ (سعودی) کبھی بھی حملہ نہ کرتے اگر ان کو یہ پتہ ہوتا کہ یہ ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے یہ احمقانہ حرکت کی، ان کی پالیسیاں ایسی تھیں جن کے نتیجے میں اردگرد کے ممالک میں نفرت کی فضا پیدا ہوئی ہے، نہ کہ محبت کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ اس وقت وہ کرائے کے فوجی لینے کو تو آماد ہ ہیں لیکن جو ان پر جان قربان کرنے کو تیار ہو، وہ کہیں پر نظر نہیں آتا ہے۔

اسلام ٹائمز: یمن کے حوالہ سے پاکستانی پارلیمنٹ کی قرارداد کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: جب پاکستانی پارلیمنٹ کے اندر ایک مضبوط اور غیر جانبدارانہ مؤقف کا اعلان کیا گیا تو سعودیوں کے ہاتھ پائوں پھول گئے، اس لئے کہ انہوں نے تو یہاں پر بہت زیادہ انویسٹمنٹ کی تھی، عوامی رائے بنائی تھی، طالبان تشکیل دی تھی، شدت پسندوں کو پرمووٹ کیا تھا، تو پھر یہ کیا ہوگیا کہ اتنے عرصے کی سرمایہ کاری کے بعد آج جب سعودیوں کو ضرورت تھی اور سعودی یہ سمجھتے تھے کہ باقی ساری دنیا ان کا ساتھ دے یا نہ دے بقول ان کے پاکستانی تو ان کے نوکر ہیں، ان کے شہزادوں نے یہی بیان دیئے ہیں کہ یہ تو ہمارے نوکر ہیں، ان کی کیا جرات ہے کہ سر اٹھا کر ہمیں انکار کریں، وہاں سے ان کو جس طرح کا ردعمل ملا، جس طرح کا موقف ان کے سامنے آیا تو اس نے ان کے ہاتھ پائوں پھلا دیئے۔ لہٰذا اس تناظر میں آپ دیکھیں تو سعودیوں کو اس وقت دو طرح کے تنازعات کا سامنا ہے، ایک داخلی مشکلات، انہوں نے حکومتی سسٹم میں اتنی اکھاڑ پچھاڑ اور توڑ پھوڑ کی ہے کہ ان کے جو بڑے ذہین سمجھدار، پختہ کار اور تجربہ کار لوگ تھے، وہ آہستہ آہستہ آئسولیٹ ہوتے چلے گئے اور ان کی جگہ ان لوگوں نے لے لی جن کے پاس تجربہ بھی نہیں تھا، شناخت بھی نہیں تھی، بس جذباتیت تھی، یہ جو یمن پر حملہ ہے اسی جذباتیت کا نتیجہ ہے، ابھی انہوں نے پچھلے دنوں شہزادہ مقرن کو الگ کیا ہے تو پرسوں کی خبر ہے کہ اس کے اکائونٹ میں 12 بلین ڈالر منتقل کئے گئے ہیں، تاکہ شہزادے کو راضی رکھا جاسکے۔

ان کے ہاں نظریہ، جذبہ، قلبی تعلق، عشق و محبت کا تعلق، ہدف اور نظریئے کا تعلق نہیں بلکہ ان کے ہاں جو چیز چلتی ہے وہ پیسہ ہے۔ پیسے کی بنیاد پر وہ ہر چیز خریدنا چاہتے ہیں، لیکن پیسے کی بنیاد پر ہر چیز کو خریدا نہیں جاسکتا، گذشتہ چالیس دنوں سے سعودیوں نے یمن پر مسلسل بمباری کی، اس بمباری میں مارے جانے والے حوثی کتنے تھے۔؟ مجاہد پچاس بھی نہیں ہیں، حوثی قبائل کے کل پچاس جنگجو بھی شہید نہیں ہوئے، سعودی بمباری میں عام عوام ماری جا رہی ہے، خواتین، بچوں، بوڑھوں کو مارا جا رہا ہے، ہسپتالوں پر بمباری کی گئی، مسجدیں نشانہ بنیں، مہاجر کیمپ نشانے بنے، بازار نشانہ بنے، عام عوامی مراکز نشانہ بنے، ان مظالم کے باعث یمن میں بسنے والے عوام جن کے اندر سعودی عرب کے لئے کچھ نہ کچھ محبت موجود تھی، وہ اب نفرت میں بدل گئی ہے۔ اسّی فیصد سے زیادہ
گذشتہ چالیس دنوں سے سعودیوں نے یمن پر مسلسل بمباری کی، اس بمباری میں مارے جانے والے حوثی کتنے تھے۔؟ مجاہد پچاس بھی نہیں ہیں، حوثی قبائل کے کل پچاس جنگجو بھی شہید نہیں ہوئے، سعودی بمباری میں عام عوام ماری جا رہی ہے، خواتین، بچوں، بوڑھوں کو مارا جا رہا ہے، ہسپتالوں پر بمباری کی گئی، مسجدیں نشانہ بنیں، مہاجر کیمپ نشانے بنے، بازار نشانہ بنے، عام عوامی مراکز نشانہ بنے، ان مظالم کے باعث یمن میں بسنے والے عوام جن کے اندر سعودی عرب کے لئے کچھ نہ کچھ محبت موجود تھی، وہ اب نفرت میں بدل گئی ہے۔
علاقوں پر حوثیوں کا قبضہ ہوچکا ہے، اور مسلسل ان کی پیش قدمی جاری ہے۔ اب اس صورتحال میں کھسیانی بلی کھمبا نوچتی ہے۔ سعودیوں کو دکھائی دے رہا ہے کہ ان کا اثر و رسوخ جتنا کم پڑ جائے گا، اس کا فائدہ سامراج مخالف قوتوں کو ہوگا، وہ قوتیں لبنان، عراق، فلسطین، شام، ایران، افغانستان اور پاکستان میں موجود ہیں، اور ان کا سرخیل اسلامی جمہوریہ ایران ہے، جو گزشتہ چار دہائیوں سے عالمی استعمار کے سامنے ڈٹا ہوا ہے، اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اب وہ ایران کو نشانہ بنانا چاہ رہے ہیں، ایران نے تو سعودی عرب پر حملہ نہیں کیا، ایران نے تو یمن میں فوج نہیں بھیجی، ایران کی تو امدادی سامان والی کشتیوں تک کو آگے جانے نہیں دیا گیا۔ اگر ایران اپنے سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے اتنا موثر ہے کہ وہ یمن کے اندر آپ کے خلاف بغاوت پیدا کرسکتا ہے، اور سعودیہ اپنی تمام تر فورسز اور اتحادیوں کے باوجود اس پر قابو نہیں پا سکا، تو پھر سعودیہ ایران کا کیا بگاڑ لے گا۔

اسلام ٹائمز: میڈیا رپورٹس میں آیا ہے کہ یمن پر بمباری میں انتہائی مہلک کلسٹر بم بھی گرائے جا رہے ہیں، عالمی اداروں کا کردار کیوں نظر نہیں آرہا۔؟
علامہ امین شہیدی: جی بالکل سعودی بمباری میں بچوں پر رحم نہیں کیا گیا، ہر وہ اسلحہ استعمال کیا گیا جو جنگی قوانین کے تحت ممنوع ہے، اب کلسٹر بم گرائے گئے، عالمی جنگی قوانین کے تحت ان کا استعمال جرم ہے، یہ جرم کیوں آشکار نہیں ہوسکا چونکہ یہ امریکہ و اسرائیلی مفاد میں ہے۔ امریکی اور اسرائیلیوں کی نظر میں کسی قانون کی کوئی اہمیت نہیں، یمن پر حملہ کے حوالہ سے امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کا ہدف ایک تھا، اور گذشتہ چار پانچ ماہ سے ان کے درمیان اس معاملہ پر گفتگو جاری تھی، یمن پر حملہ کے حوالہ سے منصوبہ بندی جاری تھی۔ لہذا جس دن سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیا، اسی دن اسرائیلی وزیر خارجہ نے کھل کر بیان دیا کہ ہم یمن پر حملہ کی حمایت کرتے ہیں اور ہم سعودیوں کا ساتھ دیں گے۔ یہ آل سعود اور آل یہود ان دونوں کا مشترکہ ایجنڈا ہے، چونکہ یہ امریکہ، اسرائیل اور سعودیہ کا مشترکہ ایجنڈا ہے، اس لئے عالمی قوانین ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ لہذا وہ فاسفورس بم استعمال کریں گے، کیمیکل بم استعمال کریں گے، عالمی قوانین کو پامال کریں، بچوں کو نشانہ بنائیں یا مہاجر کیمپوں کو نشانہ بنائیں، انسانی حقوق کو پامال کریں، انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا، کیونکہ عالمی قوانین ہمیشہ کمزوروں کے لئے ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس جنگ کا انجام کیا دیکھتے ہیں، کیا یہ جنگ دیگر ممالک تک پھیلے گی، یا ٹیبل ٹاک کے ذریعہ مسئلہ کا حل تلاش کر لیا جائے گا۔؟
علامہ امین شہیدی: جی انہیں ٹیبل ٹاک پر آنا پڑے گا، جنگ کا دائرہ تب پھیلتا جب سعودیہ کو یمن کے اندر کامیابی حاصل ہوتی، ابھی تک یمنیوں نے سعودی عرب کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا، ابھی تک سعودی عرب کی جانب سے یکطرفہ طور پر بمباری جاری ہے، یمنی قبائل فی الحال اپنے ملک کی سرحدوں کے اندر ہیں، انہوں نے ابھی تک کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا، اگر وہ بڑا قدم اٹھاتے ہیں تو پھر جنگ کے پھیلنے کے خدشات ہیں، لیکن ابھی یمنی کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے، جس کے ذریعے سعودی عرب کو پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملے، سعودی کعبہ کے غلاف کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، حرمین کے نام اور کعبے کے غلاف کو وہ ہمیشہ بیچتے رہے ہیں، اب بھی اپنے مفادات کے لئے بیچ رہے ہیں، لیکن پوری دنیا کو پتہ چل چکا ہے، ان کے دل میں حرمین کے لئے نہیں بلکہ اپنے اقتدار کے لئے محبت ہے۔ حرمین کا درد ان کے دل میں کیسے پیدا ہوگیا، کیا ازواج رسول حرمین میں شامل نہیں ہیں، کیا صحابہ کرام اور اہلبیت (ع) کے مزارات حرمین میں شامل نہیں ہیں، کیا رسول کریم (ص) کی اپنی عبادت گاہ، اور رسول کریم (ص) کے وہ آثار جو تاریخ میں سب سے زیادہ قیمتی تھے، تو انہیں منہدم کیوں کیا گیا، اس وقت انہیں حرم کی ناموس کا خیال کیوں نہیں آیا۔

آج جب ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوا، تو حرم کی فکر لاحق ہوگئی ہے، حرم ان کی نظر میں قابل فروخت چیز ہے، آج جنگ حرمین کی حفاظت اور عدم حفاظت کی نہیں بلکہ آل سعود کے اقتدار کی حفاظت کی جنگ ہے۔ آل سعود کے اقتدار کا حرمین سے کوئی تعلق نہیں، حرم اللہ اور رسول (ص) کی جگہ ہے، تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں اور حرمین کی حفاظت اسی طرح سے ہر مسلمان پر واجب اور فرض ہے، جس طرح سے آج پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ حرم کی حفاظت صرف سعودیہ کا کام ہے، یہ درست نہیں ہے، کوئی اس حفاظت کا ٹھیکیدار نہیں ہے۔ حرمین پر قابض ہونے اور حرمین کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی
جس دن سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیا، اسی دن اسرائیلی وزیر خارجہ نے کھل کر بیان دیا کہ ہم یمن پر حملہ کی حمایت کرتے ہیں اور ہم سعودیوں کا ساتھ دیں گے۔ یہ آل سعود اور آل یہود ان دونوں کا مشترکہ ایجنڈا ہے، چونکہ یہ امریکہ، اسرائیل اور سعودیہ کا مشترکہ ایجنڈا ہے، اس لئے عالمی قوانین ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
یہ کہے کہ چونکہ وہ برسراقتدار ہیں تو ان کا ہی فرض ہے کہ وہ حرمین کی حفاظت کریں، اور ان کی حفاظت حرمین کی حفاظت ہے، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے انگریزوں کے ساتھ مل کے عثمانی ریاست کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا، اور اس بڑی ریاست کو تقسیم کرنے کے بعد انگریزوں کو مسلط کر دیا، اور اس کے انعام کے طور پر آل سعود کو انہوں نے حرمین تحفے میں پیش کیا، اس وقت آپ کا عقیدہ کہاں چلا گیا تھا، عثمانی ریاست شیعہ تو نہ تھی، اسے توڑتے ہوئے اور انگریزوں کی خدمت کرتے ہوئے انہی آل سعود نے اسلام کو نقصان پہنچایا۔

اسلام ٹائمز: امام کعبہ کی پاکستان آمد کو کس انداز میں دیکھتے ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: صرف امام کعبہ نہیں، ان کے وزراء آئے، ان کے مشیر آئے، یہاں پر جن جن ہوٹلوں میں رہے، جن جن کمروں میں رہے، وہاں جس مقدار میں انہوں نے لوگوں میں پیسے تقسیم کئے، لوگوں کا اور ملاؤں کا ایمان خریدا گیا، اور لوگوں سے ڈالر کی بنیاد پر بیعت لینا چاہی، یہ چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے ایک گذشتہ بیان میں کہا کہ داعش کی تشکیل کیلئے دولت پاکستان پہنچ چکی ہے، اس حوالہ سے ہماری ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: پاکستان کو اگر ہم نے بچانا ہے تو ہر اس قوت کے خلاف جو پاکستان کے امن کو تباہ کرے اور ریاست کے مقابلے میں ریاست بنانا چاہے تو اسے پوری طاقت کے ساتھ کچلنا پڑے گا، طالبان کے معاملے میں ہم نے سستی کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ 60 سے 70 ہزار انسانوں کا خون بہا ہے، انفراسڑکچر تباہ ہوا ہے، پاکستان کا نظام تباہ ہوا ہے، اسی طرح پوری دنیا میں پاکستان کی سبکی ہوئی ہے، پاکستان کی معیشت تباہ ہوئی ہے اور اب بھی ایک بے چینی اور بے یقینی پاکستان کے اندر موجود ہے اور جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے وزیرستان بنے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان مفلوج ہے۔ اس تلخ ترین نتیجے سے گزرنے کے بعد اس وقت حکومت بھی کنفیوز ہے اور مجھے یقین ہے کہ آرمی بھی اس حوالے سے کنفیوز ہے، القاعدہ اور داعش کو اس خطے میں پنپنے نہ دے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گذشتہ 30،40 سالوں کے درمیان یہاں پر جو نرسریاں بنی ہیں، ان نرسریوں میں جس سوچ کی آبیاری کی گئی ہے، وہ وہی سوچ ہے جو القاعدہ کی تھی، وہ وہی سوچ ہے جو النصرہ کی ہے، وہ وہی سوچ ہے جو سعودیوں نے بھری ہے کہ اپنے علاوہ سب کو کافر قرار دے کر سب کی گردنیں اڑا دو اور اس کو عین عبادت اور عین دین سمجھو۔ لہٰذا جو ہماری اطلاعات ہیں کہ پیسے آچکے ہیں، ان کے کمانڈر بھی آچکے ہیں اور یہاں پر بھرتیاں بھی جاری ہیں۔ ان بھرتیوں میں اور کام کرنے میں جہاں پر سعودی ملوث ہیں، جہاں پر القاعدہ کے ماضی کے لیڈر ملوث ہیں، وہاں پر کچھ امریکی بھی ملوث ہیں۔

اگر آپ کو یاد ہو کہ لاہور میں جو بندہ داعش کیلئے بھرتیاں کرتے پکڑا گیا تھا، اس نے کہا تھا کہ مجھے ہر بندے کے عوض 600 ڈالر ملتا ہے اور پیسے امریکہ سے آتے ہیں، یہ ہمارے نیشنل میڈیا میں خبریں چھپ چکی ہیں، لیکن یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، یورپ میں ان کے لوگ موجود ہیں، اس کو ڈیل کیا جاتا ہے، امریکہ میں موجود ہیں، وہاں سے ان کو کمان کیا جاتا ہے، سعودیہ میں اپنے لوگ موجود ہیں، جو ان کو کمان کرتے ہیں، اسی طرح داعش کو شام کے اندر پسپائی ہوچکی ہے اور عراق کے اندر بھی وہ مسلسل پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں وہ ان لوگوں کا جتھا ہیں جو پوری دنیا سے جمع کئے گئے، دہشگردوں کا مجموعہ ہیں، ان کی اپنی کوئی سرزمین نہیں ہے، طالبان کی وزیرستان، شمالی، جنوبی، کے پی کے وغیرہ میں ان کی آپنی آماجگاہیں تھیں، افغانستان کے اندر ان کی اپنی زمین تھی۔ لہٰذا ان کے خلاف جنگ لڑنا ایک اچھا خاصہ مسئلہ تھا، لیکن داعش پوری دنیا سے جمع کئے گئے، یہ وہ دہشتگردوں ہیں جن کا اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، جنہوں نے اپنے پاسپورٹ
سعودی کعبہ کے غلاف کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، حرمین کے نام اور کعبے کے غلاف کو وہ ہمیشہ بیچتے رہے ہیں، اب بھی اپنے مفادات کے لئے بیچ رہے ہیں، لیکن پوری دنیا کو پتہ چل چکا ہے، ان کے دل میں حرمین کے لئے نہیں بلکہ اپنے اقتدار کے لئے محبت ہے۔ حرمین کا درد ان کے دل میں کیسے پیدا ہوگیا، کیا ازواج رسول حرمین میں شامل نہیں ہیں، کیا صحابہ کرام اور اہلبیت (ع) کے مزارات حرمین میں شامل نہیں ہیں۔
پھاڑ دیئے ہیں اور کہا کہ ہماری شناخت دولت اسلامیہ ہے۔ لہٰذا جب ان کو وہاں پر پسپائی ہو رہی ہے، وہ ان علاقوں کا رخ کریں گے جہاں پر نرسریاں موجود ہوں، اس حوالے سے آپ کا جنوبی پنجاب انتہائی خطرناک ہے، پاکستان کے وہ علاقے جہاں پر اس سے پہلے جہاد کے نام پر دہشتگردی کے مراکز بنائے گئے، لوگوں کی تربیت کی گئی، یہاں پر بہت سے مدارس ایسے ہیں جن کے دل داعش کیلئے دھڑکتے ہیں، وہ اس وقت کی سعودی پالیسی کو دیکھ رہے ہیں، جیسے ہی تھوڑی سی تبدیلی آئے گی، وہ کھل کر داعش کے سامنے آجائیں گے، لہٰذا ایسی صورتحال میں ہماری ریاست کے محافظوں کو ضرور احساس ہوگا اور ہونا بھی چاہیے کہ اگر ہم نے اس ریاست کو بچانا ہے تو ہمیں خطرے سے بالاتر ہو کر میدان میں پوری قوت کے ساتھ رہنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: ذاکر نائیک کے بعد اب مفتی نعیم نے مولود کعبہ حضرت علی علیہ السلام کے حوالے سے ایک بیان دیا ہے کہ امام علی ؑ کی ولادت خانہ کعبہ میں نہیں ہوئی، اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: دیکھیں یہ اموی فکر ہے جو کہ پوری تاریخ میں رہی ہے کہ ہمیشہ ان کی پوری کوشش رہی ہے کہ وہ اہلبیتؑ کے آثار کو بھی مٹائیں اور ان کی فضیلتوں کو بھی چھپائیں، یہ آپ کو معلوم ہے کہ اموی دور میں 70 ہزار مسجدوں میں 40 سال تک امام علی ؑ کے خلاف ہرزہ سرائی بھی کی گئی اور نماز جمعہ کے خطبوں میں بھی حتی یہاں تک کہ (نعوذ باللہ) لعن طعن کیا گیا اور یہ سلسلہ 70 ہزار مسجدوں میں 40 سال تک کیا گیا، لیکن اس کے باوجود سورج کی طرف پوری دنیا کے شیاطین تھوکیں تو تھوک ان کے اپنے چہروں پر پڑے گا، اس سے سورج پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اسی طرح امام علی علیہ السلام کے فضائل کو چھپانے کی جو کوششیں ہوتی رہی ہیں، اس کے نتیجے میں وہ لوگ تو ملیا میٹ ہوگئے ہیں لیکن علیؑ کا سورج آج بھی پوری دنیا میں بلند ہے اور اس کا چرچا ہے، پوری دنیا میں ان کے محب موجود ہیں، پوری دنیا میں شیعہ سنی مل کر اپنا امام، اپنا ولی اور اپنا مولا مانتے ہیں۔ لہٰذا ذاکر نائیک اگر سعودی فکر کے ساتھ بھارت میں بیٹھ کر لوگوں کو گمراہ کرنا چاہے اور مفتی نعیم صاحب بنوریہ ٹائون میں رہ کر اس فکر کو عام کرنا چاہیں تو یہ ان کے نقصان میں تو جاسکتا ہے لیکن اللہ کے ولیوں کے نقصان میں نہیں جاتا۔

اس لئے ہمیں کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے، اگر ہم تاریخی شواہد کے اعتبار سے دیکھیں تو 189 حدیثیں اہل سنت کی معتبر کتابوں میں فضائل علی ابن ابی طالب ؑ موجود ہیں، حاکم نیشا پوری ہوں یا پھر شاہ محدث دہلوی ہوں، سب اس بات کے قائل ہیں کہ امام علی ابن ابی طالب ؑ کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ ان کی ولادت خانہ کعبہ کے جوف میں ہوئی ہے، ان کی ولادت نے یہ ثابت کیا ہے کہ خانہ کعبہ سے بتوں کو توڑ کر پاک کریں گے، یہ وہ بغض ہے جو اموی دور سے چلا آرہا ہے کہ بعض صحابہ ؓ کے حوالے سے ان امویوں نے بھرپور کوشش کی کہ یہ فضیلت ان کے حصہ میں آئے، لہٰذا کہا گیا کہ ان کی فضیلت (میں نام نہیں لینا چاہتا) کہ ان کی فضیلت یہ ہے کہ واحد وہ فرد ہیں جن کی ولادت کعبہ میں ہوئی اور ادھر جب مولا علیؑ کی بات ہوئی تو کہا کہ یہ تو کوئی فضیلت نہیں ہوئی کہ بتوں کے درمیان ان کی پیدائش ہو، فلاں فلاں وغیرہ اس قسم کی باتیں غلط باتیں ہیں، یہ جو بغض ہے، بغض بولتا ہے، اس کے پیچھے اخلاص نہیں ہے بلکہ دشمنی اور عداوت ہے۔ میری دعا ہے کہ مفتی نعیم صاحب کو اللہ ہدایت دے اور مجھے امید ہے کہ اگر ان کو یہ بات سمجھ آجائے تو وہ خود تائب ہوجائیں گے اور پلٹ آئیں گے اور مجھے امید ہے کہ ان کے اندر سے بغض نکل آئے گا، جبکہ ذاکر نائیک کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب گلگت بلتستان میں الیکشن کی آمد آمد ہے مجلس وحدت مسلمین کس طرح سے ان انتخابات میں وارد ہوگی۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: دیکھیں گلگت بلتستان کی صورتحال ایسی ہے کہ وہاں پر بڑی جماعتیں بھی انتخابی دنگل میں داخل ہوچکی ہیں، جن میں پیپلز پارٹی وہاں پر پہلے سے چلی آرہی ہے، جبکہ (ن) لیگ کا بھی چھوٹا موٹا اثر ہے اور مرکز میں ان کی حکومت ہونے کی وجہ سے اب سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے اور تیسری قوت تحریک انصاف ہے، لیکن گلگت بلتستان میں پہلی دفعہ
اگر آپ کو یاد ہو کہ لاہور میں جو بندہ داعش کیلئے بھرتیاں کرتے پکڑا گیا تھا، اس نے کہا تھا کہ مجھے ہر بندے کے عوض 600 ڈالر ملتا ہے اور پیسے امریکہ سے آتے ہیں، یہ ہمارے نیشنل میڈیا میں خبریں چھپ چکی ہیں، لیکن یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، یورپ میں ان کے لوگ موجود ہیں، اس کو ڈیل کیا جاتا ہے، امریکہ میں موجود ہیں، وہاں سے ان کو کمان کیا جاتا ہے، سعودیہ میں اپنے لوگ موجود ہیں، جو ان کو کمان کرتے ہیں، اسی طرح داعش کو شام کے اندر پسپائی ہوچکی ہے اور عراق کے اندر بھی وہ مسلسل پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین انتخابی دنگل میں داخل ہوچکی ہے اور ان سب پارٹیوں کے مقابلے میں سب سے بڑی اور مؤثر قوت میں میدان میں کھڑی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین نے تقریباً ۱۴ امیدوار کھڑے کئے ہیں اور اس حوالے سے ملاقاتوں کا سلسلہ اور حلقے میں افہام و تفہیم کا سلسلہ بھی جاری ہے، ہمیں یقین ہے کہ اگر انشاءاللہ اسی طرح اس حالت میں کام چلتا رہے تو آنے والے الیکشن میں بڑی تبدیلیاں آئیں گی، البتہ یہ بات ہے کہ کوئی بھی پارٹی ایسی نظر نہیں آتی کہ جس کو سیٹوں کی اکثریت حاصل کرکے وہ مستقل اپنی حکومت بنا سکے بلکہ مخلوط حکومت ہوگی، لیکن ان پارٹیوں میں جو ہمارا کردار ہوگا وہ ایک مضبوط اور عوامی ترجمانی کرنے والا کردار ہوگا، اس چیز کا ادراک نون لیگ کو بھی ہے، پیپلز پارٹی کو بھی اور تحریک انصاف کو بھی ہے۔

لہٰذا اس تناظر میں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس علاقے کا مفاد کیا ہے، اس مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اقدامات کر رہے ہیں، ہم نے ان جماعتوں سے بات کی ہے کہ جن کے ایجنڈے میں وہاں کے بنیادی حقوق دلانے کی بات سرفہرست ہو، ہم نے ان تمام جماعتوں پر واضح کیا ہے کہ سینیٹ میں، قومی اسمبلی میں، اس علاقے کو نمائندگی دی جائے اور اس وقت تک جب تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اس علاقے کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک اس کو ایک صوبہ ڈیکلیر کیا جائے اور جو صوبہ کے حقوق ہوتے ہیں وہ ان کو دیئے جائیں، یہ ہمارا دیرنہ مطالبہ بھی ہے اور اس کیلئے ہم جدوجہد بھی کر رہے ہیں، ہماری خواہش یہ ہے کہ وہاں کے علاقہ کا جتنا بھی پوٹینشل ہے وہ اس علاقے کی ترقی پر خرچ ہو، تقریباً 16 یا 20 لاکھ کی آبادی ہے اور اتنی آبادی کو مینیج کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے اور نہ اس کیلئے اتنا بڑا کوئی پھنے خاں چاہیے، اگر اس علاقے کے وسائل اس علاقے پر صرف کئے جائیں اور چوروں اور ڈاکوئوں کے ہاتھ کاٹیں جائیں تو آپ یقین جانیں کہ 5 سال کے اندر علاقے کی تقدیر بدل سکتی ہے، لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ جو  مرکز میں بیٹھے ہیں اور ان سیاسی جماعتوں میں جو چور ڈاکو بیٹھے ہیں، وہ اس علاقے کے وسائل پر ہمیشہ نگاہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور جیسے ہی برسرِاقتدار آتے ہیں تو ان کی لاٹری نکل آتی ہے۔ لہٰذا ہماری خواہش یہ ہے کہ ایسے لوگ جیتیں اور ایسے لوگ اسمبلیوں میں آئیں، جن کا دل اس علاقے کے ساتھ دھڑکے اور وہاں کے علاقے کے وسائل کو وہاں پر استعمال کرے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو آپ یقین کریں کہ بہت کم عرصے میں اس علاقے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی کلچر کے فروغ کیلئے اسلامی جمہوریہ ایران کوشاں ہے، گذشتہ دنوں اربعین حسینی کو اجاگر کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر پھیلانے کیلئے ایک اقدام اٹھایا ہے، جس کے تحت ایک تصویری مقابلہ کروایا گیا گیا اور اب جیتنے والے ممالک میں اس مقابلہ کی پچاس بہترین تصاویر کی نمائش بھی کریں گے تو آپ اس اقدام کو کس طرح سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: میں سمجھتا ہوں کہ کربلا کا کلچر صرف ایرانیوں سے منسوب نہیں ہے، بلکہ کربلا کا کلچر اہل دل کا کلچر ہے، جن کے دل زندہ ہیں اور جن کے دل نورِ اہلبیتؑ سے منور ہیں، جن کا دل اللہ تعالٰی کی ذات کیلئے دھڑکتا ہے، جن کے دل کے اندر حریت موجود ہے، شجاعت موجود ہے، بہادری موجود ہے تو یہ ان سب کا فرض ہے، اس لئے کہ کربلا کسی خاص فرقے یا طبقے کی میراث نہیں ہے، کربلا حریت پسند انسانوں کی میراث ہے۔ لہٰذا کربلا کے کلچر کو، کربلا کے پیغام کو اور کربلا کے اندر جو پوٹینشل موجود ہے اس پوٹینشنل کو انسانوں تک پہنچانا اور جو فکر حسینی ؑاور فکر کربلائی ہے، اس کو بچوں سے لیکر بوڑھوں کے دماغ تک منتقل کرنا، یہ اللہ تعالٰی کے ہر پاکیزہ بندے کی ذمہ داری ہے، اگر ایرانی اس سلسلے میں پیش قدم ہوئے ہیں تو ان کو سراہنا چاہیے، لہٰذا اس کلچر کو عام کرنے کیلئے، دامے، درہمے، سخنے یا جو بھی ہو اس کی مدد ہونی چاہیے، اس کو سراہنا بھی چاہیے، اس کیلئے میدان ہموار بھی ہونا چاہیے، کوشش کرنی چاہیے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جاسکے اور کربلا کو کسی خاص مسلک یا فرقے کیلئے مخصوص نہ کریں، کربلا اہل سنت کا بھی ہے، اہل تشیع کا بھی ہے بلکہ سب انسانوں کیلئے ہے، حتٰی یہاں تک کہ ہندو بھی کربلا کو مانتے ہیں اور حسین ابن علیؑ کی اس حریت کو مانتے ہیں اور ان کے قدموں پر سر رکھنے کو تیار ہوتے ہیں۔ لہٰذا کربلا کو اس طرح سے عام کریں جس طرح سے اللہ کی واحدنیت عام ہے، اللہ تعالٰی کا فیض عام ہے، جس طرح سے انسانوں کیلئے اللہ کی رحمانیت اور رحمیت عام ہے، اس طرح سے کربلا بھی ایک اس کی ایک تجلی ہے۔ لہٰذا اس کو اسی طرح تمام انسانوں تک پہنچنا چاہیے اور کربلا کی روح کو تمام انسانوں کے اندر زندہ ہونا چاہیے۔
 
خبر کا کوڈ: 459418