امریکی انخلاء کے اعلان کے بعد افغانستان کی موجودہ صورتحال کیا ہے، کیا نئی افغان حکومت خطہ میں امن لانے کیلئے کوئی کردار ادا کر رہی ہے۔؟

محمد ابراہیم خان: سب سے اہم بات اشرف غنی کا اقتدار میں آنا ہے، کیونکہ اشرف غنی وہ شخص ہیں، جن کا کوئی جنگی پس منظر نہیں ہے، اگر ہم اس سے پہلے دیکھیں تو حامد کرزئی یا دیگر جو افراد افغانستان میں اقتدار میں آئے وہ جنگی سردار تھے، ان کا کسی نہ کسی لحاظ سے جنگ سے ناطہ رہا ہے، اشرف غنی ان سے اس وجہ سے مختلف ہیں کہ وہ ایک معیشت دان ہیں، جو معیشت دان ہوتے ہیں ان کی قیام امن کیلئے دیگر لوگوں کی نسبت تڑپ زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ انہیں اپنے کاروبار کا بھی احساس ہوتا ہے کہ جب تک کسی سماج میں دیرپا امن اور سیاسی استحکام نہیں ہوگا، ایسے سماج کی معیشت بہتر نہیں ہوسکتی، تو افغانستان میں اس وقت امن و امان کا بہتر نہ ہونا مسئلہ ہے، تاہم معیشت کا نہ ہونا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے، افغانستان میں گذشتہ دو، تین عشروں کے دوران معیشت بہت خراب ہوئی ہے، اب اشرف غنی کی اپروچ کی وجہ سے افغانستان میں صورتحال بہتر ہو رہی ہے، پاکستان کیساتھ معاملات کے حوالے سے انہوں نے اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کو ترجیح دی، میرے کہنا کا مقصد پاک فوج سے، وہ جی ایچ کیو گئے اور جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی، ایک طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اگر افغانستان میں اشرف غنی جیسا معیشت دان اقتدار میں آیا تو دوسری طرف پاکستان میں بھی شہید سپاہیوں کے خاندان سے جنرل راحیل شریف نے کمانڈ سنبھالی۔

جنرل راحیل شریف کا تعلق فوجی افسران کی اس کھیپ میں سے ہے، جنہوں نے خود دہشتگردی کیخلاف جنگ میں حصہ لیا، اور پھر انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ ساری بربریت دیکھی، لہذا ان کا اس حوالے سے نقطہ نظر اپنے پیشرو کے مقابلہ میں زیادہ آمریت پر مبنی تھا، وہ امن چاہتے تھے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کے نزدیک گڈ اور بیڈ طالبان کی بھی کوئی تمیز نہیں تھی، اس کی ایک جھلک یہ ہے کہ جب آرمی پبلک اسکول پشاور کا سانحہ ہوا تھا تو اسی شام وزیراعظم نے جو پریس کانفرنس کی تھی تو انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ اب گڈ اور بیڈ طالبان کی تمیز نہیں رہے گی، اور سب کیخلاف بلاامتیاز کارروائی ہوگی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو صورتحال افغانستان سے چل رہی ہے اس کا پاکستان پر بھی اثر ہو رہا ہے، اشرف غنی کی پالیسی بڑی مفاہمت پر مبنی ہے، ان کی کوشش ہے کہ افغانستان میں موجود تمام اسٹیک ہولڈرز کو اقتدار میں ذمہ دار بنایا جائے، بجائے یہ کہ طالبان کو حکومت سے باہر رکھ کر یہ موقع دیا جائے کہ وہ حکومت کو تنگ کریں، اشرف غنی نے نہ صرف خود یہ بات محسوس کی بلکہ امریکہ کو بھی اس پر قائل کیا ہے، آپ نے دیکھا کہ امریکہ کی طالبان کی طرح جو جارحانہ زبان تھی وہ اب نہیں ہے، اور اس تبدیلی کے اثرات خطہ پر بھی پڑ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاک افغان تعلقات ہمیشہ اونچ نیچ کا شکار رہے ہیں، جس طرح آپ نے فرمایا کہ اشرف غنی اور جنرل راحیل شریف کی پالیسیوں سے خطہ میں بہتری آرہی ہے، کیا دونوں ممالک کے مابین قیام امن کیلئے بہتر تعلقات قائم ہوتے نظر آتے ہیں۔؟
محمد ابراہیم خان: تعلقات قائم ہوتے نظر نہیں آرہے بلکہ ہوچکے ہیں، اگر آپ ایک سال پہلے دیکھیں تو پشاور سمیت خیبر پختونخوا میں جس حساب سے دہشتگردی کے واقعات ہو رہے تھے اور فاٹا میں بھی کارروائیاں ہو رہی تھیں، اس وقت دہشتگردوں کی استعداد اور اہلیت زیادہ تھی، اور وہ بڑے ٹارگٹ کو بھی نشانہ بناتے تھے، جب آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو اس کے بعد سے دہشتگردوں کی کمر ٹوٹی ہے، اور اس کا کریڈٹ میں جنرل راحیل شریف کو دیتا ہوں، اور آپ کو میں بتاوں کہ اگر یہ ممکن ہوا ہے تو یہ افغانستان کے تعاون سے ہوا ہے، ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو اس وقت افغانستان میں صدارتی انتخابات کا رن آف الیکشن جاری تھا، اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہیں سے ساری تبدیلی آئی ہے، اور آپ دیکھیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات اتنے بہتر ہوگئے ہیں کہ آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والے 27 رکنی گروہ کے آدھے زیادہ لوگ گرفتار یا مارے جا چکے ہیں، اب افغانستان کیساتھ بارڈر فورس بنانے کی بات ہو رہی ہے، اگرچہ یہ مشکل اس لئے ہے کہ دونوں طرف سے بعض ایسے لوگ موجود ہیں کہ جو نہیں چاہتے کہ یہ فورس بنے، تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ جلد ایک مشترکہ بارڈر فورس بنے گی، یا اگر نہیں بھی بنتی تو اس کی ضرورت ضرور محسوس ہوگی، کیونکہ جب پاکستان اپنے علاقہ میں کارروائی کرتا ہے تو دہشتگرد بھاگ کر افغانستان کی حدود میں چلے جاتے ہیں، اور اسی طرح اگر افغانستان کارروائی کرتا ہے تو وہ یہاں گھس آتے ہیں، لہذا انہیں بھاگنے یا چھپنے کا موقع مل جاتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مشترکہ بارڈر فورس کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے، اور اگر یہ ممکن ہوجاتا ہے تو یہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا۔

اسلام ٹائمز: آپریشن ضرب عضب کہاں تک پہنچا ہے، کیا اسے ملک گیر سطح تک توسیع دی جا رہی ہے۔؟
محمد ابراہیم خان: اس بارے میں بھی میں یہی کہوں گا کہ اس کا دائرہ کار وسیع کیا نہیں جا رہا بلکہ ہوچکا ہے، اس حوالے سے میں آپ کو تھوڑا پیچھے لے جاوں کہ اے پی ایس (آرمی پبلک اسکول) واقعہ کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا تھا کہ پاکستان کی گلی گلی میں آپریشن ضرب عضب کی ضرورت ہے، انہوں نے اس موقع پر کہا تھا کہ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ ایک چھوٹے سے گھر کیلئے کوئی شخص پچاس ساٹھ روٹیاں لیکر جاتا ہے تو آپ سوال کریں، تو ضرب عضب کو توسیع دی گئی ہے، آپ دیکھیں کہ لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ اپنے اطراف میں نظر رکھیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ بنیادی تبدیلی ہے، شمالی وزیرستان میں 95 فیصد تک کا علاقہ کلیئر کیا جاچکا ہے، آپریشن ضرب عضب کی دو وسعتیں ہوئی ہیں، ایک آپریشن خیبر ون ہے، جو خیبر ایجنسی میں ہو رہا ہے اور دوسرا خیبر ٹو ہے۔ آپریشن ضرب عضب اس حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے قبل جو بھی آپریشنز ہوئے وہ ایک خاص علاقہ تک محدود رہتے تھے، لیکن اس بار ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے، قبائلی علاقہ جات میں بعض ایسے علاقے ہیں جہاں موسم کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے، وہاں آپ جتنی بھی فضائی بمباری کرلیں، جب تک آپ کے زمینی دستے نہیں جائیں گے، آپ علاقہ کو کلیئر نہیں کرسکتے، اسی وجہ سے شمالی وزیرستان میں 5 فیصد علاقہ کلیئر ہونا رہ گیا ہے، جو لوگ شمالی وزیرستان سے بھاگے تھے انہوں نے خیبر ایجنسی میں پناہ لینی شروع کی، جو کہ پشاور سے 6 منٹ کی مسافت پر واقع ہے، لہذا فوج نے خیبر ایجنسی میں آپریشن خیبر ون کیا، اور اب خیبر ٹو کی تیاریاں ہو رہی ہیں، اور جن مشکل علاقوں کو کلیئر نہیں کروایا جاسکا، ان کو زمینی دستے کلیئر کرا دیں گے۔

اسلام ٹائمز: پارلیمنٹ نے یمن کے معاملہ پر قرارداد مشترکہ طور پر منظور کی تھی، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حکومت اس قرارداد کی پاسداری کر رہی ہے، یا اپنی ہی پالیسی پر گامزن ہے۔؟
محمد ابراہیم خان: حکومت جو کرتی ہے وہ علیحدہ بات ہے، بظاہر ایسا لگ نہیں رہا کہ اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہے، موجودہ حکومت کو ہمیں یہ کریڈٹ دینا ہوگا کہ جب سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے، اس نے پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کوشش کی ہے، آپ نے دیکھا کہ جب تحریک انصاف نے دھرنا شروع کیا تو حکومت نے جوائنٹ سیشن منعقد کیا اور پارلیمنٹ سے رہنمائی لی، اس کے بعد یمن کے معاملہ پر بھی جوائنٹ سیشن بلایا گیا اور وزیراعظم نے بغیر لگی لپٹی رکھے کھلے الفاظ میں ایوان میں کہا کہ ہم کوئی ہیرا پھیری نہیں کرنا چاہتے بلکہ پارلیمنٹ سے رہنمائی لینا چاہتے ہیں، بعض عرب ریاستوں کی پاکستان سے کچھ زیادہ ہی توقعات تھیں اور ان کا خیال تھا کہ وہ وہاں سے بس ایک سیٹی بجائیں گے اور یہاں سے ہماری فوج بھاگی چلی جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا، امارات کے ایک وزیر نے ایک ایسی بات کہ جس سے لگ رہا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ان کی جیب میں ہے، درحقیقت پاکستان ایک جوہری طاقت ہے، اور نہ صرف مسلم امہ بلکہ پوری دنیا میں اس کا ایک اہم مقام ہے۔ پھر پاکستان کی عزت و وقار کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی۔

ہمارے وزیر داخلہ نے امارات کے وزیر کو آڑے ہاتھوں لیا، اس موقع پر پاکستان اور سعودی عرب کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوشش کی گئی، اگر آپ دیکھیں تو قرارداد میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ مقامات مقدسہ کو اگر نقصان پہنچنے کا احتمال بھی ہوتا ہے تو پاک فوج تو کیا پوری پاکستانی قوم وہاں لڑنے کیلئے تیار ہوگی، لیکن وہاں ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔ یہ اسلام کی تعلیمات ہیں کہ جب آپ کے دو بھائی آپس میں لڑ پڑیں تو ان کی صلح کی بات کی جائے، تو میرا خیال ہے کہ پارلیمنٹ نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے، بجائے یہ کہ کسی ایک پلڑے میں اپنی حمایت ڈال کر دوسرے بھائی کیساتھ اپنے تعلقات کو ناخوشگوار کیا جاتا، پارلیمنٹ نے ایک اچھا فیصلہ کیا، اور کچھ کنفیوژن نے جنم لیا تو وزارت دفاع کا ایک اجلاس منعقد ہوا، جس کی صدارت وزیراعظم نواز شریف نے کی، اس اجلاس میں وزیر دفاع بھی موجود تھے، جنرل راحیل شریف بھی موجود تھے، اس اجلاس کے بعد پھر وزیراعظم اور جنرل راحیل شریف دونوں سعودی عرب جاتے ہیں اور واپسی پر انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے انہیں کوئی مطالبات کی فہرست نہیں تھمائی، میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب دونوں ذمہ دار افراد وہاں گئے تو غلط فہمیوں کو ختم کیا اور اس دورہ سے سعودی عرب کے دل میں بھی کوئی بات تھی تو وہ معاملہ ٹھیک ہوگیا اور اسی طرح یمن کے حلقوں نے بھی اطمینان کا سانس لیا کہ پاکستان کسی ایک طرف نہیں جا رہا، پارلیمنٹ کا فیصلہ نہ صرف یہ کہ اچھا تھا بلکہ ایک بار پھر ہم نے دیکھا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوئی، جو پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے نیک شگون ہے۔

اسلام ٹائمز: یمن کا معاملہ علاقائی مسئلہ تھا، حرمین شریفین کے تحفظ کا مسئلہ تھا، یا پھر فرقہ وارانہ جنگ مسلط کرنے کی سازش تھی۔؟
محمد ابراہیم خان: میرے خیال میں اس معاملہ کو علاقائی مسئلہ کے تناظر میں دیکھنا چاہئے، اسے اتنی ہوا نہ دی جائے، یہ ایک دوسرے کیساتھ جڑے ہوئے ملک ہیں، ایک گھر میں بھی لڑائی ہوجاتی ہے، برتن بھی ساتھ پڑے ہوں تو آپس میں ٹکرا جاتے ہیں، یہ ایک علاقائی مسئلہ تھا اور اس میں دونوں بھائیوں کو مل بیٹھ کر فیصلہ کرنا چاہئے، انہیں مصالحت کی سہولت دی جائے، میرے خیال میں پاکستان کا رول سہولت کار کا بنتا ہے، مجھے دکھ ہے کہ او آئی سی کو اس حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئے تھا، بہرحال دونوں مسلم ممالک ہیں اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہئے۔
 
خبر کا کوڈ: 457492