انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ ڈپلومیٹک سٹڈیز کے زیر اہتمام وفاقی دارالحکومت میں مشرق وسطٰی کے تنازعات اور پاکستان کے کردار کے موضوع پر گول میز کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں سفارتکاروں، اراکین اسمبلی اور متعدد تھنک ٹینکس کے سربراہوں نے شرکت کی، کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے سابق سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے حرمین کی حفاظت کے نام پر پاکستان سے فوجی مدد کا مطالبہ کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب حرمین شریفین کی حفاظت کا اہل نہیں ہے، چنانچہ حرمین شریفین کی حفاظت کسی دوسرے اسلامی ملک کے سپرد کرنی چاہیئے، انہوں نے کہا کہ ویٹی کن اٹلی میں واقع ہے، لیکن وہاں کی سکیورٹی سوئئزرلینڈ کی فورسز کے پاس ہے۔
رپورٹ: آئی اے خان
وفاقی دارالحکومت میں انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ ڈپلومیٹک اسٹڈیز کے زیر اہتمام اسلام آباد کلب میں ’’مشرق وسطٰی کے مسائل اور پاکستان کا کردار‘‘ کے موضوع پر گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں مختلف سفارتخانوں کی اعلٰی شخصیات نے شرکت کی۔ گول میز کانفرنس میں سینیٹر رفیق احمد راجوانہ، سینیٹر غوث بخش خان مہر، سینیٹر اویس لغاری، وزارت خارجہ کے سابق سیکرٹری جنرل سینیٹر (ر) محمد اکرم ذکی، ادارہ فکر و عمل کے رہنما آصف لقمان قاضی، ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری سیاسیات سید ناصر عباس شیرازی کے علاوہ متعدد پالیسی ساز اداروں سے منسلک افراد نے شرکت کی۔ گول میز کانفرنس میں شرکاء نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد پر عمل درآمد کرتے ہوئے پاکستان کو مشرق وسطٰی کے تنازعات میں غیر جانبدار رہنا چاہیے اور مسلم امہ کے درمیان تنازعات کے حل کے لئے مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیئے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ کے رکن سینیٹر غوث بخش مہر نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان کا اہم دوست اور اسٹریٹیجک پارٹنر ہے۔ یمن پر سعودی عرب کے حملوں کے بعد انتشار پیدا نہیں ہوا، بلکہ یمن میں پہلے سے ہی انتشار موجود تھا۔ پاکستان سعودی عرب کی سلامتی پر کوئی کمپرومائز نہیں کرے گا۔ پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتوں نے سعودی عرب کا ساتھ دیا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے نائب صدر آصف لقمان قاضی نے کہا کہ مشرق وسطٰی میں جاری انتشار میں ایک چیز مشترک ہے کہ ایک خاص طبقہ یعنی حکمران طبقے کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، یہ تمام وہ حکمران ہیں، جن کو مغرب کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ جو مغربی حکومتوں کی مدد سے اقتدار میں آئے ہیں یا انہی حکومتوں کی مدد سے انہوں نے اپنے اقتدار کو طول دیا ہے۔ یہ تمام ڈکٹیٹرز ہیں۔ تیس، تیس، چالیس چالیس سالوں سے عوام پر مسلط ہیں۔ تیونس میں چالیس سال کے دوران دو حکومتیں تبدیل ہوئیں۔
آصف لقمان قاضی نے کہا کہ حکمرانوں کے خلاف جو بھی تحریک اٹھی، اسے ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی آزادی کے طالب عوام کو کئی کئی سال جیلوں میں قیدیوں کی طرح گزارنا پڑے۔ ان ملکوں میں اگر کہیں جمہوریت آتی بھی ہے تو وہ مغرب کے لئے ناقابل قبول ہوتی ہے۔ انہوں نے مصر کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ایک سال کے دوران تین مرتبہ انتخابات ہوئے۔ وہاں ہر مرتبہ عوامی حمایت سے ایک اسلامی پارٹی اقتدار میں آئی، مگر اس کے باوجود وہ مغرب کے لئے قابل قبول نہیں تھی۔ وہاں اس کو حکومت نہیں کرنے دی گئی، تو ایسے ماحول میں استحکام کیسے وجود پاسکتا ہے۔ یمن میں ایران اور سعودی عرب کا مسئلہ ہوسکتا ہے، مگر وہاں پر شیعہ سنی مسئلہ ہرگز نہیں ہے۔ پاکستان کے لئے ایران بھی انتہائی اہم ہے اور سعودی عرب بھی اہم ہے۔ لہذا ہمیں تمام تر حقائق کو مدنظر رکھ کے آگے بڑھنا ہوگا۔
گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر ملک رفیق احمد راجوانہ نے کہا مشرق وسطٰی کے حالات قابل تشویش ہیں۔ امریکہ کا کردار کبھی بھی تحسین آمیز نہیں رہا۔ مشرق وسطٰی کے موجودہ حالات میں بہرحال امریکہ کا بھی کردار ہے۔ ہم ایک اسلامی ملک ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے بہترین تعلقات ہیں، مگر یمن بھی ایک اسلامی ملک ہے۔ پاکستان یمن کے معاملے میں فریق کی حیثیت سے شریک نہیں ہے۔ البتہ یمن کے مسئلہ کو حل کرنے میں پاکستان کردار ادا کرسکتا ہے۔ خلیجی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات بہت اچھے ہیں اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں موجود ہے۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، فارن افیئرز کے ہیڈ کرنل محمد خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ داعش کی تخلیق میں سی آئی اے کا کردار تھا۔ اسلامی ملکوں کو تقسیم کی جانب لے جایا جا رہا ہے۔ عراق پر امریکی حملے کے بعد جو مقاصد حاصل نہیں ہوسکے، وہ داعش کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ آج عملی طور پر عراق کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ یمن کا معاملہ بھی اسی طرح ہیں۔ مشرق وسطٰی میں موجودہ تنازعات کا تاریخی پس منظر مشترک ہے۔ یمن میں عوام کے سماجی و اقتصادی مسائل ہی حالیہ بحران کی جڑ ہیں۔ یمن کے تنازعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے سے مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہوجائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان یمن میں غیر جانبدار رہے۔ فریق بننے سے پاکستان کی اسلامی دنیا سے متعلق پالیسی اور خارجی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے سابق سیکرٹری جنرل و سینیٹر اکرم ذکی نے کہا کہ سعودی عرب نے حرمین کی حفاظت کے نام پر پاکستان سے فوجی مدد کا مطالبہ کیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب حرمین شریفین کی حفاظت کا اہل نہیں ہے۔ چنانچہ حرمین شریفین کی حفاظت کسی دوسرے اسلامی ملک کے سپرد کرنی چاہیئے۔ حرمین شریفین کی حفاظت پاکستان کے سپرد کی جاتی ہے، تو پاکستان اس کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویٹی کن اٹلی میں واقع ہے، لیکن وہاں کی سکیورٹی سوئٹزرلینڈ کی فورسز کے پاس ہے۔ پاکستان ایک بڑی فوجی اور جوہری طاقت ہے، چنانچہ ابھی حرمین کی حفاظت پاکستان کے سپرد کردی جائے اور کچھ عرصے کے بعد کسی دوسرے اسلامی ملک کے سپرد کر دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پر بڑی طاقتوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ یمن جنگ میں جانے سے پاکستان کو ایک غیر ذمہ دار جوہری طاقت سمجھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے یمن کے مسئلہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جس صدر کی حکومت بحال کرنے کے لئے سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیا۔ منصور ہادی یمن کا قانونی صدر نہیں ہے۔ اس نے باقاعدہ استعفٰی دیا اور پھر فرار ہوکر سعودی عرب چلا گیا۔ اس کی صدارت کی مدت بھی ختم ہوچکی ہے۔ جن حوثیوں سے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ ان سے سعودی عرب کو خطرہ لاحق ہے۔ مصر کے خلاف سعودی عرب انہی حوثیوں کو مدد فراہم کرتا رہا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یمن میں فوج بھیجنا غیر آئینی بھی ہوگا، کیونکہ پاکستان کے آئین میں واضح لکھا ہوا ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا کے ساتھ اتحاد کی بنیاد پر تعلقات کو فروغ دے گا۔ اکرم ذکی کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے پاس ابھی بھی یمن کے کئی علاقے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اگر منصور ہادی کو قانونی صدر قرار دیا جا رہا ہے، تو یمن کا سابق صدر علی عبداللہ صالح جس کو سعودی عرب کی سرپرستی اور حمایت حاصل تھی، وہ حوثی قبائل کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان کے خلیجی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ان کی فضائی اور بحری افواج کے چیف پاکستانی رہ چکے ہیں۔ سعودی عرب امریکی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ عرب ممالک کی مشترکہ فوج بھی تشکیل دی جاچکی ہے۔ سعودی عرب نے یمن پر حملہ کرنے سے قبل اسلامی ملکوں کی کانفرنس نہیں بلائی، بلکہ عرب ملکوں کی کانفرنس بلائی۔ جب پاکستان عرب ملک ہے ہی نہیں تو پھر اس سے فوجی شرکت کا مطالبہ کس لئے کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے حملوں کی وجہ سے یمن میں القاعدہ اور داعش منظم ہوچکی ہے، انہوں نے جیلوں سے قیدی نکال لئے ہیں۔ داعش کو سی آئی اے کی مدد حاصل ہے، جبکہ سعودی عرب امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس کے علاوہ یمن کی جنگ میں امریکہ سعودی عرب کو سیٹلائٹ انفارمیشن بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ ان تمام چیزوں سے صرف نظر ممکن نہیں۔ آج بھی وہاں کے مسئلہ کا حل مذاکرات ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ سابق صدر ہادی یا علی عبداللہ صالح کے خلاف کوئی شیعہ تحریک تھی، بلکہ حوثی تحریک میں شیعہ اور سنی دونوں شامل تھے۔ پاکستان کو مذاکرات کے لئے کوشش کرنی چاہیئے۔ فریق بننے یا فوجی شرکت سے گریز کرنا چاہیئے۔ اگر حرمین شریفین سکیورٹی کی غرض سے پاکستان کے سپرد کئے جاتے ہیں تو پاکستان یہ ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار ہے۔
خبر کا کوڈ: 456354