ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 18 اپريل 2015

وزیر اعظم نواز شریف گلگت بلتستان کے دورے پر گئے۔ گلگت یونیورسٹی کے طلبا میں لیپ ٹاپ بانٹے اور 140 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے گلگت بلتستان میں ترقیاتی پیکیج کا اعلان ایسے وقت میں کیا جب وہاں کی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں ۔

تحریکِ انصاف نے وزیر اعظم کے ترقیاتی پیکیج کو پری پول دھاندلی قرار دیا اور چیف الیکشن کمشنر کو خط بھیج دیا۔ ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق وزیر اعظم کی حمایت میں آئے اور فرمایا کہ وزیر اعظم آخر کو برسرِ اقتدار جماعت مسلم لیگ کے سربراہ بھی ہیں۔ مگر شفاف انتخابات کی مروجہ روایات کی پاسداری کا سوال اہم ہوگیا۔

گلگت کی منتخب حکومت کی میعاد ختم ہوئی تو وزیر اعظم نے نگراں حکومت قائم کی اور اس کے ساتھ ہی وفاقی وزیر برجیس طاہر کوگورنر مقررکیا۔ یوں ایک وفاقی وزیرکی گورنر کی حیثیت سے تقرری کو غیرجانبدار انتخابات کے لیے چیلنج قرار دیا گیا۔ اگرچہ گلگت بلتستان کے قانون کے تحت ایک وفاقی وزیر کی گورنر کی حیثیت سے تقرری کو قانونی حیثیت حاصل ہے مگر گورنر کی غیر جانبداری کا معاملہ الجھ کر رہ گیا۔

دنیا بھر میں جہاں شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی روایت مضبوط ہے  وہاں حکومتوں کے کردار اور خاص طور پر نگراں حکومتوں کے کردار کو بھی محدود کردیا گیا ہے۔ برطانیہ میں جب پارلیمنٹ اور کاؤنٹی کے انتخابات ہوتے ہیں تو وزیر اعظم اور وزراء مکمل غیرجانبدارانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور کسی صورت سرکاری عہدے اور وسائل کو اپنی پارٹی کے امیدواروں کی مہم میں استعمال نہیں کیا جاتا۔

اگرکسی سرکاری عہدیدار پر انتخابی مہم کے دوران سرکاری وسائل استعمال کرنے کا الزام لگ جائے تو اس کے سیاسی مستقبل کے مخدوش ہونے کے خاصے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں وزراء مستعفی ہونے کو ہر صورت ترجیح دیتے ہیں۔ بھارت میں جمہوری نظام کے مستحکم ہونے کی ایک بڑی وجہ شفاف انتخابات کا انعقاد اور آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن سے ممکن ہوا۔

بھارت میں بیوروکریٹس الیکشن کمیشن کے سربراہ اور رکن ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی عدلیہ اور انتظامیہ مکمل تابعداری کرتی ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے شفاف انتخابات کے لیے ایک جامع ضابطہ اخلاق تیارکیا ہوا ہے۔ اس ضابطہ اخلاق کے تحت انتخابی مہم شروع ہوتے ہی وزیراعظم اور وزراء کے انتخابی حلقے کے دوروں پر پابندی عائد ہوجاتی ہے۔

وزیراعظم، وفاقی وزراء، صوبائی وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے اراکین سرکاری ٹرانسپورٹ استعمال نہیں کرسکتے نہ کسی قسم کی ترقیاتی اسکیم کا اجراء کرسکتے ہیں۔ اس ضابطہ اخلاق کے تحت پانی کی فراہمی اورسڑک کی تعمیر جیسی اہم اسکیموں کے اجراء پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ اگر وزیر اعظم یا وزراء کسی سرکاری طیارے یا دیگر ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں تو انھیں اس کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ پھر انتخابی حلقے میں ہر قسم کے تبادلوں اور تقرریوں پر پابندی عائد ہوجاتی ہے۔

کسی بھی انتظامی افسر کا تبادلہ اگر اشد ضروری ہو تو اس کے لیے چیف الیکشن کمشنر سے اجازت لازمی درکار ہوتی ہے۔ بھارت میں چیف الیکشن کمشنر کو ریاست کے اعلیٰ ترین افسر  اور سیکریٹری تک کے تبادلے اور نئی تقرری کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی افسر اس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو الیکشن کمیشن کو اس کے خلاف تادیبی کارروائی کا اختیار ہوتا ہے۔ بعض دفعہ تو الیکشن کمیشن کے احکامات کی خلاف ورزی کی بناء پر انتظامی افسران کو ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑجاتے ہیں۔

بھارت میں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد 1977 میں عام انتخابات کا اعلان کیا تو لکھنو کے حلقے کے پریزائیڈنگ افسر نے مرکزی وزیر داخلہ کو پولنگ میں مداخلت پر جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ اس وقت برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے اردو، ہندی اور انگریزی کے سیکشن کی سب سے اہم خبر بھارت کے اس پریزائیڈنگ افسر کا جرات مندانہ فیصلہ تھا۔ بھارت میں عوام کا الیکشن کمیشن پر اعتماد پیدا ہونا شروع ہوا۔

بھارت کے الیکشن کمیشن نے چند سال قبل چندی گڑھ میں ہونے والے انتخابات میں پولنگ سے ایک دن قبل بینک سے ایک لاکھ روپے سے زیادہ رقم بطورکیش نکلوانے پر پابندی لگادی تھی اور جن لوگوں نے ان تاریخوں میں کیش نکلوایا تھا ان کا اکاؤنٹ تین دن کے لیے منجمد کردیا گیا۔ اسی طرح پولنگ والے دن شراب کی فروخت پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔  بھارتی الیکشن کمیشن نے اپنی ساکھ کو اس حد تک مضبوط کرلیا کہ اب لوک سبھا کے انتخابات 15 دن میں مکمل ہوتے ہیں اور ابتدائی دنوں میں ہونے والی پولنگ کے بعد بیلٹ بکس سیل کردیے جاتے ہیں اور کوئی شخص اس بارے میں کسی قسم کی تشویش کا شکار نہیں ہوتا ۔

وزیر اعظم پاکستان ایک ایسے وقت میں گلگت بلتستان گئے جب وہاں عام انتخابات ہورہے ہیں اور مسلم لیگ ان انتخابات میں حصہ بھی لے رہی ہے جس کے باعث وزیر اعظم کا اعلان کردہ ترقیاتی پیکیج کسی نہ کسی طرح مسلم لیگ کی رہنما کی انتخابی مہم کا حصہ بن جائے گا۔ تحریکِ انصاف کے وزیر اعظم  کے دورے پر اعتراض کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ ستمبر میں صوبہ خیبر پختون خواہ، پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہونے ہیں۔

اگرچہ اسلام آباد اور پنجاب میں حکومت نے غیر جماعتی نمایندوں کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے مگر ان صوبوں میں برسرِ اقتدار مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی جماعتیں حصہ لیں گے۔ وزیر اعظم، ان کی کابینہ کے اراکین، تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور ان کے وزراء اور مشیر وغیرہ ان انتخابات میں بھرپور حصہ لیں گے۔

پھر وزیر اعظم، ان کے وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور ان کے وزراء سرکاری ٹرانسپورٹ اور سرکاری وسائل استعمال کرنا شروع کر دیں گے اور صرف وزیراعظم شہر شہر اور گاؤں گاؤں جا کر ترقیاتی اسکیموں کا اعلان کرتے ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سرکاری فنڈز کو انتخابی مہم کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

سرکاری فنڈز استعمال کرنے کا مطلب ووٹروں کو مرغوب کرنا ہے ۔ تو پھر شفاف انتخابات خواب ہی بن جائیں گے جس کا سارا فائدہ طالع آزما قوتوں کو ہوگا۔ گلگت بلتستان پاکستان کی ریاستی حدود میں نہیں آتا، یوں پاکستان کے ائین کا وہاں اطلاق نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دور میں ایک قانون کے تحت اسمبلی قائم ہوئی۔

اسی طرح پاکستان کا الیکشن کمیشن گلگت بلتستان میں بھی انتخابات نہیں کراتا، وہاں چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات محدود ہیں۔ سپریم کورٹ کے دائرے میں بھی گلگت بلتستان نہیں آیا، اسی بناء پر پاکستانی الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کا گلگت بلتستان میں اطلاق نہیں ہوتا۔ اس صورتحال میں تحریکِ انصاف کے اعتراض کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

اس ضمن میں تحریکِ انصاف کی انتخابی اصلاحات سے عدم دلچسپی بھی ایک سوال بن کر ابھری ہے۔ اگر تحریکِ انصاف گو نواز شریف گو کا نعرہ لگا کر اسلام آباد پر چڑھائی کے بجائے انتخابی اصلاحات پر توجہ دیتی اور پارلیمنٹ جامع اصلاحات کا قانون منظور کرتی اور ان اصلاحات کا اطلاق گلگت بلتستان پر بھی ہوتا تو تحریکِ انصاف کو میاں نواز شریف کے دورے پر واویلا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ الیکشن کمیشن ازخود وزیر اعظم کو نوٹس جاری کرتا۔

بہرحال وزیر اعظم کا اس وقت گلگت کا دورہ اور ترقیاتی پیکیج کا اعلان کسی صورت مناسب نہیں تھا۔ وزیر اعظم کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی اہمیت کو محسوس کرنا چاہیے جس سے ان کا وقار بلند ہوگا اور عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد بڑھے گا۔
تبصرے