داعش کی نابودی کے بعد عراق کا سیاسی مستقبل
 
 اگر عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے قومی سلامتی اور مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے بغداد میں سرگرم پریشر گروپس اور اثرورسوخ کے مالک متوازی گروہوں کا مقابلہ کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی موثر اور اعتدال پسندانہ موقف اپنایا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عراق کو درپیش سماجی اور سیاسی چیلنجز کا بخوبی مقابلہ کر پائیں گے۔
 
تحریر: نیک نام ببری 

عالمی رائے عامہ کے سامنے ایک اہم سوال یہ ہے کہ عراق سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خاتمے کے بعد اس ملک کی سیاسی اور سکیورٹی صورتحال کیا ہو گی؟ دوسرے الفاظ میں یہ کہ کیا داعش جیسے مشترکہ خطرے کے دور ہو جانے کے بعد بھی موجودہ حالات میں جنم لینے والا اتحاد اپنی طاقت اور اندرونی اتحاد کو باقی رکھ پائے گا؟ یا یہ کہ شدت پسندی کا خطرہ ٹل جانے کے بعد عراق کے مختلف گروہ قومی اور مذہبی فرقہ واریت کا شکار ہو کر اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں پڑ جائیں گے اور عراقی معاشرہ ایک بار پھر انتشار کا شکار ہو جائے گا؟ اس وقت یہ اندیشہ عراق کے اندر اور عالمی حلقوں میں شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ مستقبل قریب میں وزیراعظم عراق حیدر العبادی کی حکومت کو درپیش اہم مسئلے کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گا۔ 

 
موجودہ شواہد و مدارک کی روشنی میں، تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے وابستہ عناصر نے سابقہ بعث پارٹی کے بچے کھچے عناصر کی مدد سے عراق کے ایک چوتھائی حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ دوسری طرف ان کے زیر تسلط علاقے اقتصادی اور صنعتی لحاظ سے بہت اہم تصور کئے جاتے ہیں۔ اب جبکہ عراق کی مسلح افواج اور عوامی رضاکار فورس، داعش کے خلاف مرحلہ وار کامیابیاں حاصل کر رہی ہے اور انہیں بتدریج پیچھے کی طرف دھکیل رہی ہے، بعض سیاسی حلقوں میں یہ پریشانی پائی جاتی ہے کہ عراق کی اہم سنی مذہبی اور سیاسی شخصیات سابق بعث پارٹی سے وابستہ عناصر کے بارے میں کیا موقف اختیار کریں گی؟ یہ مسئلہ خاص طور پر تکریت شہر میں خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ شہر سابق عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کا جائے پیدائش ہونے کے ناطے بعث پارٹی کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ تکریت شہر، جو بغداد اور موصل کے وسط میں واقع ہے، گذشتہ برس داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق سابق عراقی وزیراعظم نوری المالکی کے مخالف سنی فوجی افسران نے اس قبضے کے دوران داعش کی مدد بھی کی تھی۔ اسی وجہ سے تکریت شہر کسی خاص مزاحمت کے بغیر داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ تقریبا ایک سال گزرنے کے بعد عراق کی مسلح افواج نے عوامی رضاکار فورسز کے تعاون سے تکریت شہر اور صوبہ صلاح الدین کی آزادی کیلئے ایک بڑا فوجی آپریشن انجام دیا جس میں ایک ماہ کی لڑائی کے بعد تکریت کو داعش سے آزاد کروا لیا گیا ہے۔ 

 
تکریت میں عراق کی مسلح افواج اور شیعہ رضاکار فورسز کے داخلے نے سنی رہنماوں میں پریشانی اور خوف کی لہر دوڑا دی ہے اور وہ شیعہ گروہوں کی جانب سے ممکنہ انتقامی کاروائیوں کے بارے میں پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ اسی سلسلے میں شیخ ستار عبدالجبار نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے عراقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسے ممکنہ اقدامات کو روکنے کیلئے موثر اقدامات انجام دے۔ شیخ ستار عبدالجبار کا دعوی ہے کہ شیعہ فورسز تکریت میں سنی شہریوں کے گھر جلا رہی ہیں جبکہ بدر پارٹی سے وابستہ شیعہ ملیشیا کے سربراہ ہادی العامری نے واضح کیا ہے کہ ان کی فورسز نے ہر گز شہریوں سے ناروا سلوک اختیار نہیں کیا اور تکریت شہر میں عام شہریوں کا کوئی جانی نقصان بھی نہیں ہوا۔ علاوہ ازایں، عراق کے معروف مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی سیستانی نے اپنے ایک اہم پیغام میں عراق کی مسلح افواج اور عوامی رضاکار فورسز پر زور دیا ہے کہ وہ ہر فوجی کاروائی کے دوران اسلامی اصولوں کی پابندی کو یقینی بنائیں۔ اسی طرح عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے بھی فورسز کی جانب سے عام شہریوں کے جانی و مالی تحفظ کا خیال رکھنے پر زور دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ داعش کے خلاف آپریشن میں مرحلہ وار پیش قدمی کی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ اس طرح بے گناہ انسانوں کی زندگی کا ضیاع کم از کم حد تک پہنچایا جا سکے۔ 

 
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ صورتحال میں انتقامی کاروائی کی باتیں سیاسی اور قومی پہلو سے ماورا ہو کر شدت پسند سنی رہنماوں اور شیعہ گروہوں کے درمیان گہرے شکاف کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس امر نے عراق کے سیاسی مستقبل کے بارے میں موجود پریشانیوں کو شدت بخش دی ہے۔ بدقسمتی سے سابق عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کی سرنگونی کو 12 سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک عراق کی سیاسی فضا کافی حد تک اتحاد اور ہم آہنگی وجود میں نہیں آ سکی اور جمہوری کثرتیت کا شکار ہے۔ ہر سیاسی گروہ اور جماعت اپنا سیاسی اقتدار جمانے کی خواہش رکھتی ہے اور طاقت کے آزادانہ استعمال کو ترک کرنے یا کسی دوسرے کے سپرد کرنے پر راضی نظر نہیں آتی۔ گذشتہ چند عشروں کے دوران عراق پر سنی سیاسی جماعتوں کا اقتدار رہا ہے اور ایک کے بعد دوسری سنی سیاسی جماعت ملک پر حکمفرما رہی ہے۔ لہذا اب بھی وہ اپنے افکار اور اہداف و مقاصد کو زمینی حقائق کے ساتھ تطبیق دینے میں مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ سنی مسلک جو عراق کی کل آبادی کا صرف 20 فیصد ہیں، 1932ء میں برطانیہ کی سرپرستی سے آزادی حاصل ہونے کے بعد سے صدام حسین کی سرنگونی تک ملک کے اقتدار پر قابض رہے ہیں۔   

 
برطانوی استعمار سے آزادی کے بعد 1958ء میں جنرل عبدالکریم قاسم کی فوجی بغاوت تک عراق پر سلطنتی نظام حکومت برسراقتدار تھا اور شاہ فیصل اول اس کے تاج و تخت کے مالک تھے۔ 1963ء میں عبدالسلام عارف نے جنرل عبدالکریم قاسم کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور فوجی بغاوتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ زمام اقتدار حسن البکر اور صدام حسین کی سربراہی میں بعث پارٹی کے ہاتھ لگ گئی۔ حسن البکر عراقی مسلح افواج کے اعلی سطحی فوجی افسر تھے جو کئی سالوں سے فوج میں رہ کر بہت زیادہ فوجی تجربہ اور حالات سے آگاہی حاصل کر چکے تھے۔ انہوں نے 1968ء میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے صدر عبدالرحمان عارف کا تختہ الٹ دیا اور اس طرح ملک پر پہلی بار عرب نیشنل ازم اور سوشل ازم پر مبنی آئیڈیالوجی رکھنے والی بعث پارٹی حکمفرما ہو گئی۔ بعث پارٹی 2003ء تک 35 برس تک عراق پر برسراقتدار رہی اور ملک کے اندر اور علاقائی سطح پر بہت سے ناگوار واقعات کا باعث بنی۔ 

 
اس تاریخی جائزے سے جو چیز واضح طور پر سمجھ آتی ہے وہ عراق کے چند قومیتی اور متنوع معاشرے پر اقلیتی سنی عرب قوم کی مسلسل حاکمیت تھی۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد عراق پر حکمفرما ہونے والی تمام سیاسی شخصیات یا جماعتوں کا تعلق بغیر کسی استثنا کے سنی مسلک عرب قومیت سے تھا۔ یہ نکتہ اپنی جگہ تجزیہ و تحلیل کے لائق ہے کہ عراق کے سیاسی ماضی اور عثمانی سلطنت کے ایسے سنی حکمرانوں میں خاص تعلق پایا جاتا ہے جو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے عراق کے سنی عوام کی جانب خاص جھکاو رکھتے۔ اس لمبے عرصے کے دوران سنی سیاسی گروہوں کو تنظیمی اور سیاسی تجربہ حاصل ہوا جس کے باعث ان میں سیاسی عہدے سنبھالنے کی زیادہ استعداد پائی جانے لگی۔ 

 
دوسری طرف اس بارے میں مغربی حکومتوں خاص طور پر برطانوی حکومت کے طرز عمل کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ برطانوی سیاست دان ہمیشہ سے ہر ملک میں موجود اقلیتی آبادی کی حمایت کرتے آئے ہیں تاکہ ان کی مدد سے اکثریتی آبادی کو اپنے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور انقلاب برپا کرنے سے روک سکیں۔ مثال کے طور پر ایک ایسے معاشرے میں جس کی 55 فیصد آبادی شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، اور ائمہ اطہار علیھم السلام کے مزارات شریف اس ملک میں واقع ہونے کے ناطے عالم تشیع کا مرکز قرار دیا جاتا ہے، اگر ایک ایسی شیعہ حکومت برسراقتدار آ جاتی ہے جسے عظیم ثقافتی اور سماجی حمایت حاصل ہو تو وہ برطانوی مفادات کیلئے ایسی سنی حکومت سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے جو معاشرے میں اقلیت شمار کئے جاتے ہیں اور انہیں اکثریت سے مقابلہ کرنے کیلئے ہمیشہ ایک بیرونی حامی کی ضرورت ہے۔ لہذا عراق کے آج کے اکثر مسائل اور چیلنجز کو صحیح طور پر درک کرنے کی چابی اس ملک کے گزشتہ تاریخی اور سیاسی تجربات کا جائزہ لینے میں پوشیدہ ہے۔ 

 
عراق کے شیعہ عوام کئی سالوں کے انتظار کے بعد اس ملک میں واپس اقتدار میں لوٹے ہیں۔ 2003ء کے بعد سنہری جمہوری فارمولے کی بنیاد پر شیعہ گروہوں اور جماعتوں کو عراقی پارلیمنٹ کی بلا تنازعہ اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔ اس وقت حیدر العبادی شیعہ عوام کا نمائندہ ہونے کے ناطے مخلوط حکومت بنا کر عراق کی زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں۔ اب ہمیں عراق میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کا منتظر رہنا ہے اور دیکھنا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں اور گروہ آپس میں کس قسم کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اگر عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے قومی سلامتی اور مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے بغداد میں سرگرم پریشر گروپس اور اثرورسوخ کے مالک متوازی گروہوں کا مقابلہ کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی موثر اور اعتدال پسندانہ موقف اپنایا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عراق کو درپیش سماجی اور سیاسی چیلنجز کا بخوبی مقابلہ کر پائیں گے۔ لیکن اگر ملک میں سرگرم متوازی گروہ اور پریشر گروپس مختلف طاقتوں کی حمایت سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے رہیں اور اس کے نتیجے میں عراق عالمی طاقتوں کا اکھاڑا بن جائے تو ایسی صورت میں اس ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔