تحریر:حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
برصغير كے مسلمانوں نے اس عزم ويقين كيساتھہ قراداد پاكستان 23 مارچ 1940 كومنظورکیا كه هم هرقيمت پرپاكستان كو حاصل كر كے رہینگے. تاكه اپنی مذهبی رسوم كو مكمل آزادی كي ساتهـ ادا كر سكيں
اور انكا پرجوش نعره آج بهي فضاوں ميں كونج رها ہے ” هم لے كے رہینگے آزادی ” اور اسي مشن كي خاطر بے پناہ قربانياں ديكر يه ملك حاصل كيا.
ليكن پاكستان بننے كے تقريبا 30 سال بعد بيروني طاقتوں كے تعاون سے ايك ايسا مائنڈ سيٹ پاكستان پر مسلط هوگیا كه جس نے اپنی سياسی, عسكری طاقت سے مذہبی آزادی كا گلا گونٹنا شروع كر ديا.انسانی ،دينی ، وسياسی حقوق كي پا مالي كي بد ترين مثال اور ظلم وجبر پر قائم بادشاهت وملوكيت كے نظام (سعودي نظام)كو پاكستان ميں نافذ كرنے كي تھان لی .اور قومي وملى مفادات كوپس پشت ڈال كر ڈالروں اور ريالوں کی شکل میں خصوصی مراعات كي خاطر خطے ميں استعماری اشاروں پربننے والي تحلفات كا حصه بننے كي پالیسی اختيار كي گئی. اور دوسري طرف مذهبی آزادي سلب كرنے كي پاليسی كو آگے بڑھایا گیا. كبهی عيد ميلاد النبي صلى الله عليه وآله وسلم كي جلوسوں کےسامنے ركاوٹيں ڈالنے كي كوشش كی اوركبهی عزادري نواسه رسول خدا ص كو روكنے اور محدود كرنے كيلے شيعه مذهب كو دہشتكردي كا نشانه بنايا گيا. 30% پاكستان (شيعه) كی نسل كشي كی گی اورباقی 50% پاكستان( اہل سنت بريلويوں ) كے دينی ومذهی شعور كو مجروح كيا گیا اور انهيں محروميوں ميں دهكيل ديا گيا. اسی طرح اقليتوں كا بهي جينا حرام كر ديا گيا . كبهی وطن عزیز كي فضاء ميں درود وسلام پڑھنے پر پابند سلاسل كيا جاتا ہے اور كبهي پرامن شهريوں پر بے بنیاد کیسز بنا کر انہیں حراساں کیا جاتا ہے
اور دوسري طرف پاكستان اور پاكستاني عوام كي دشمن اور انكي حمايت اور سرپرستی كرنے والے مكمل آزاد ہیں جبکہ ان کی شر سے نہ مسجدیں اور امامبارگاہیں محفوظ ہیں اور نہ کلیسا، مندر اور كردوریں، نہ سکولوں کے بچے محفوظ ہیں نہ عسکری، سرکاری، وتجارتی مراکز, ہر شهري بارود كے ڈھیر میں زندگی کررہا ہے اور اسے نہیں معلوم کب ،کہاں اور کیسے دھماکہ ہوگا یعنی پاکستان کا ہر شہری آج موت اور حیات کی کشمکش میں زندگی بسر کر رہا ہے . حتی23 مارچ اور 14 اگست جیسے قومی دن بھی سخت سکیورٹی کے بغیر منانا ناممکن ہوگیا ہے . ملک جل رہا ہے اور تباہی کے دہانے پر ہے جبکہ دہشت گرد اور انکے سرپرست مولوی جو حکومت کی ریٹ کو چلنج کرنے کے باوجود دارالحکومت اسلام آباد میں بیٹھہ کر حکومت کو دھمکیاں دے رہے ہیں ان کے خلاف کاروائی کی کسی کو جرئت نہیں ہوتی
اور بدقسمتی یہ هے كه دهشت گردي كي پنيري لكانے والے اور اسكی بيچ بونے والے انكے خلاف كاروائيوں پرمامور ہیں
لہذا آج ايك بارپهر هر محب وطن اور انسانيت دوست پاكستانی شھری كو 23 مارچ1940 كے عزم و يقين سے تجدید عہد کرتے ہوئے ملك كو تكفيريت كے اس فتنہ سے نجات دلانےكيلئے هاتهوں ميں ہاتھہ ڈال كر ملى وحدت واخوت كاعملى مظاهره كرنا هو گا.بڑی سے بڑی قربانی دیکر بھی ہمیں اپنی مذہبی اقدار اور ملکی سالمیت کیلے میدان میں آنا ہوگا . اوردہشتگردوں کے خاتمے کیلے جاري پاک آرمي آپریشن كي مكمل حمايت كرنا هوگا . نان ایشوز ميں الجهانے والے سياست دانوں اور حكمرانوں سے خير كي توقع نهيں كي جاسكتی. جو يه سمجھہ رہے ہیں كه سعودي عرب جيسا نظام نماز لا كر دہشتگردی كو روكا جا سكتا ہے اور عبد و معبود كے معنوي اور مقدس رشتے كو زبردستي كے نظام سے جوڑا جا سكتا هے. 23 مارچ كو يہ عهد كرنا هو گا كه هم مذهبی آزادی کے لے حاصل کردہ اس مملکت کو ظلم وجبر كي سلطنت ميں تبديل نهیں هونے دينگے. اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رح اور مصور پاکستان علامہ اقبال رح کے فکری دشمنوں کے چنگل سے مملکت خداد داد پاکستان کو آزاد کرینگے
انشاء اللہ