گلگت تجزیاتی رپورٹ) گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے متوقع انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے تاہم وفاق پرست مذہبی سیاسی جماعتوں نے گلگت بلتستان میں دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت باضابطہ الیکشن مہم کا آغاز کر دیا ہے
۔ تفصیلات کے مطابق اس حوالے سے شیعہ علماء کونسل (اسلامی تحریک پاکستان)، مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم)، جماعت اسلامی پاکستان اور جمعیت علماء اسلام نے باضابطہ انتخابی مہم شروع کردی ہے اورمذکورہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین ابتک متعدد دورہ جات کر چکے ہیں۔ اسلامی تحریک پاکستان کے مرکزی سیاسی سیل و منشور کمیٹی کے انچارچ علامہ شبیر میثمی اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات ناصر عباس شیرازی بھی ان دنوں انتخابی معاملات کو حتمی شکل دینے کیلئے گلگت بلتستان کے دورے پر ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں گلگت بلتستان میں مذہبی جماعتوں کا اہم کردار آنے والے انتخابات میں بھی خارج از امکان نہیں تاہم انکی رائے میں اگر مذہبی جماعتیں کسی مشترکہ الائنس کی صورت میں انتخابات میں سامنے آنے کی بجائے علیحدہ علیحدہ شناخت سے انتخابات میں وارد ہوئیں تو اس کا براہ راست فائدہ دیگر سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو ہوگا۔ جبکہ دوسری صورت میں اگر مذہبی جماعتیں ایم ایم اے طرز کا کوئی الائنس گلگت بلتستان سطح پر بھی تشکیل دیتے ہیں تو مذہبی سیاسی جماعتیں اس کا بھر پور فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور اسکے علاقے کی امن و امان کی مخدوش صورتحال بالخصوص فرقہ واریت کے خاتمے اور اتحاد بین المسلمین کے فروغ کیلئے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اپنا گلگت کو باخبر زرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس حوالے سے جماعت اسلامی، اسلامی تحریک اور جے یو آئی کے مزاکرات ب ھی ہو چکے ہیں جبکہ مجلس وحدت مسلمین کے علامہ امین شہیدی سے بھی جماعت اسلامی کے زریعے رابطے کئے جاچکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ مذہبی جماعتیں کسی مشترکہ الائنس کی صورت میں انتخابات میں وارد ہونے کو ترجیح دینگی یا پھر روایتی انداز میں انتخابات میں وارد ہونگے۔ دوسری جانب مساجد بورڈ کے اراکین اور پاکستان مسلم نواز و پیپلز پارٹی کے گلگت شہر سے تعلق رکھنے والے سیاسی راہنما گورنر، فورس کمانڈر اور وفاقی حکومت پر دباو ڈال رہے ہیں کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت مذہب کے نام پر ووٹ لینے پر بھی پابندی عائد کی جائے اور مساجد و دینی مقدسات کو ووٹ کے نام پر استعمال میں لانے پر پابندی عائد کی جائے جبکہ آغا راحت حسینی، قاضی نثار احمد، شیخ حسن جعفری اور دیگر جید علماء کو سیاست سے دور رکھنے کیلئے پابند کیا جائے۔ واضح رہے کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی دو سال قبل فرقہ وارانہ واقعات کے بعد مساجد بورڈ قائم کر چکی ہے اور باضابطہ اور متفقہ طور پر “مساجد بورڈ ایکٹ” کے نام سے بل بھی پاس کر چکی ہے جس کی روح سے مذہب کے نام پر انتخابات میں حصہ لینا اور مساجد کو انتخابی مہم کیلئے استعمال میں لانا غیر قانونی تصور ہوگا۔