خالق نے قرآن میں مومنین کو خطاب کیا ہے ۔’’ اِنْ تَتَّقُواللّٰہَ‘‘ اگر تم لوگو ں نے تقویٰ اختیار کیا اگر تم متقی بن گئے ’’ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَا نًا ‘‘ خداوند متعال تمہارے لئے فرقان عطا کرے گا ۔ ایسی روح آپ کو بخشے گا ایسی چیز آپ کو عطا کردے گا کہ اس چیز کے ذریعے سے آپ حق اور باطل کے درمیان فرق کر سکیں گے اور اس چیز کی نورانیت اور ہدایت کی برکت سے آپ وہ راستہ جو خدا کی طرف جاتا ہے اس راستے سے جدا کر سکیں گے جو شیطان کی طرف جاتا ہے ۔
وَیُکَفِّرعَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ‘‘ جب تم لوگ تقوی اختیار کرو گے تو خداوند متعال تمہاری برائیوں کو چھپا دے گا اور ’’وَیَغْفِرْلَکُمْ‘‘اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا ۔کچھ ہوتے ہیں اصول۔ جس طرح ایک عمارت کے لئے بنیاد کی ضرورت ہے جس پر وہ عمارت کھڑی ہو جاتی ہے اسی طرح ہمیں بھی زندگی میں سعادت کے حصول کے لئے سعادت دنیوی و اخروی کے حصول کے لئے کچھ اصول اپنانے چاہئیں کچھ بنیادیں بنانی چاہئیں۔ اگر ان بنیادوں پر ہم نے اپنی زندگی کواستوار کیا تو یقینا پھر ہم سرفراز و سربلند ہو ں گے۔ جو بھی مشکل ہم پر آئے گی تو ہم اس سے سرفراز و سربلند باہر آئیں گے اور شکست سے دوچار نہیں ہوں گے۔ ان اصولوں میں سے ایک اصول اور ان بنیادوں میں سے ایک بنیاد تقویٰ ہے کہ اگر ہم نے تقویٰ اختیار کر لیا تو اس کے بعد خداوند متعال نے وعدہ کیا ہے کہ ہم تم کو فرقان عطا کریں گے۔ اس فرقان کے ذریعے آپ اپنی زندگی میں نیک و بد حق وباطل اور سچ اور جھوٹ میں تمیز کرسکیں گے اور آپ کسی جگہ پر نہیں پھسلیں گے اور لغزش میں مبتلا نہیں ہوں گے
تقویٰ کے آثار
اب تقویٰ کے آثار ڈھونڈنا چاہیں تو ہم دیکھیں کہ ہم مثلاآئی او ٗآئی ایس او یا تحریک میں کام کررہے ہیں جو مذہبی جماعتیں ہیں جن میں دین و مذہب مرکزیت رکھتے ہیں اور دوسرے مسائل اس کے اردگرد گھومتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے اندر دیکھنا ہے کہ میں دو تین پانچ یا دس سال سے اس تنظیم میں کام کر رہا ہوں آیا مجھ میں کچھ تقویٰ آیا ہے یا نہیں؟ تو یہاں پر تقویٰ کے کچھ آثار ہوتے ہیں۔ جس طرح کہ اس زمین میں قوۃجاذبہ(کشش ثقل)ہے۔ یہ قوۃ جاذبہ دیکھنے کی چیز نہیں ہے لیکن کچھ آثار سے ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ زمین میں قوۃ جاذبہ ہے۔ اگر میں اس تسبیح کو چھوڑ دوں تو یہ نہ تو اوپر جائے گی اور نہ ہی دائیں بائیں جائے گی بلکہ یہ سیدھی زمین کی طرف جائے گی۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زمین میں کشش اورقوۃ جاذبہ ہے۔ اب ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے دیکھا ہے کہ زمین میں قوۃ جاذبہ ہے۔ تو آپ کہیں گے کہ قوۃ جاذبہ ان چیزوں میں سے نہیں ہے کہ جنہیں آپ حواس خمسہ سے درک کر سکیں بلکہ یہ ان چیزوں میں سے ہے کہ آثار کے ذریعے جنہیں آپ درک کر سکتے ہیں تو تقویٰ بھی ایسی ہی چیز ہے۔ تقویٰ ان چیزوں میں سے نہیں ہے کہ دور سے اگر ہم ایک جوان کو دیکھیں تو اس کی آنکھوں اور پیشانی سے ہم یہ سمجھ سکیں کہ یہ شخص متقی ہے بلکہ ہم اسے آثار کے ذریعے پہچانیں گے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا تقویٰ کے کچھ آثار ہم میں موجود ہیں یا نہیں ؟
تقویٰ کی پہلی نشانی
تقویٰ کا ایک اثر یہ ہے کہ اگر واقعاًہمارے دلوں میں تقویٰ موجود ہو تو پھر ہم اپنے بھائیوں کے خلاف نہ بات کریں گے نہ ان کے خلاف بدگمانی پھیلائیں گے بلکہ اگر ایک کام ہم نے اپنے بھائی سے دیکھ لیا تو اس کو حمل برصحت کریں گےمیں نے اگر دیکھ لیا کہ ایک لڑکا ایک خاتوں کو اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار کر کے لے جارہا ہے تو میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ نامحرم لڑکی کو ساتھ لے جارہا تھا۔ بلکہ میں حمل برصحت کروں گا کہ ہو سکتا ہے وہ اس کی بہن ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی پھوپھی یاخالہ ہو۔ مثلا اس کے محارم میں سے ہو ، محرم ہو (نامحرم نہ ہو) یا مثلا اگر میں نے دیکھ لیا کہ ہمارے بھائی نے ایک لفظ کہہ دیا کہ جس سے فرض کریں دوسرے بھائی کی مذمت ہو یہاں پر میں اس کو حمل برصحت کروں گا کہ ہو سکتا ہے یہاں پر کچھ مصلحت ہو اور اس مصلحت کی وجہ سے اس شخص نے یہ لفظ کہا ہو۔ جس طرح کہ ہمارے آئمہ اطہار علیہم الصلوۃ والسلام اپنے اصحاب کو زمانے کے حکمرانوں کے ظلم وتشدد سے بچانے کے لئے کبھی کبھی ان کے خلاف بھی ایک آدھ جملہ استعمال کرتے تھے تا کہ وہ لوگ کہیں کہ یہ ان افراد میں سے نہیں ہے تو اسی طرح اگر مثال کے طور پر کسی بھائی نے (ہم آپ کی مثال نہیں دیتے ہم اپنی مثال دیتے ہیں) کہ ہم مثلا متنازع فیہ قسم کے افراد میں سے ہیں اب ایک علاقے میں اگر کوئی سمجھے کہ آپ ہمارے ساتھ مربوط ہیں تو پہلے سے ہی آپ کوکام کا موقع نہیں ملے گا لہٰذا وہاں پر آپ کہہ دیتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہماراکوئی رابطہ نہیں ہے یہ فلاں قسم کی فکر رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ اس مصلحت کے تحت ہے تاکہ آپ کو وہاں کام کرنے کا موقع مل جائے اور آپ ان میں فکر اسلامی کے لئے کام کر سکیں۔ اگر پہلے سے وہ یہ سمجھ لیں کہ آپ فلاں شخص کے ساتھ مربوط ہیں تو آپ ادھر تقریر کے لئے اٹھیں گے تو وہ آپ کے خلاف نعرے لگائیں گے کہ یہ فلاں کا آدمی ہے اسے نکال دو۔ بولنے نہ دو۔ پس ہم اگر ایک جگہ دیکھیں گے کہ فلاں شخص کے خلاف اس نے بات کی تو ہم اس کو اس وقت حمل بر صحت نہیں کریں گے فوراً اس کو سند بناکرپورے یونٹوں کو بھیج دیں گے کہ فلاں تو ہمارے آئی ۔ایس۔او کے خط کے خلاف ہے۔ اس نے ہمارے فلاں آدمی کے خلاف تقریرکی ہے۔ یہ کیا ہے ؟ وہ کیا ہے وغیرہ اور اس شخص کو جو آپ کے پاس نعمت تھی اور قدرت تھی آپ نے اس کو خودبخود ضائع کر دیا۔ یا مثال کے طورپر بعض جگہوں میں کچھ افراد مستضعف ہیں۔ ابھی تک وہ حقائق درک نہیں کر سکے ہیں اگر یہاں پر آپ کے دل میں تقویٰ موجود ہے تو آپ ان کو موقع دے دیں۔ ان کے ساتھ بات کریں ٗ ان سے بحث کریں ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی طرف آجائیں لیکن اگر غصے میں آکر ٗ احساسات میں آکر ٗ آپ نے ان کے خلاف باتیں کیں آپ نے ان کے احساسات وجذبات کو مجروح کیا تو وہ آپ کے پاس آنے کے لئے تیار تھے بھی تو آپ کے اس رویے کی وجہ سے وہ آپ کی تنظیم سے دور ہو جائیں گے۔ اب ایک نشانی تقویٰ کی یہ ہے کہ اگر آپ نے اپنی تنظیم میں کسی بھائی سے کوئی ایک بات دیکھ لی تو آپ فوراً اس کو برے پہلو پر حمل نہ کریں آپ اس کو حق اور نیکی پر حمل کریں۔ یہاں تک کہ بعد میں اگر آپ کو تحقیق کے ذریعے معلوم ہو گیا کہ وہ واقعاً آپ کے خط کا مخالف ہے وہ مثلاً آپ کی تنظیم کے ساتھ نہیں ہے تو اس کے بعد آپ کا جو قانون ہے اس کے مطابق عمل کریں۔ یہ تقویٰ کی ایک نشانی ہے ۔