پاک سرزمین پر آئے روز کسی نہ کسی مظلوم کا خون بہایا جاتا ہے، چاہے وہ کسی بھی مسلک یا برادری سے تعلق رکھتا ہو، لیکن اگر وہ دہشتگردوں یا ان کی حامی حکومتوں کے خلاف آواز اٹھائے گا تو اس کی آواز کو دبا دیا جائے گا، جس کی مثالیں سانحہ ماڈل ٹائون لاہور جیسے کئی واقعات ہیں۔ حکمران جن دہشتگردوں سے اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لئے نہتے عوام کا قتل عام کرواتے ہیں، وہی دہشگرد اب پاکستان کے اداروں اور سکولوں پر حملے کرنے لگے ہیں۔ سانحہ پشاور جیسا اندوہ ناک واقعہ کہ جس پر ہر آنکھ اشک بار ہوئی اور ہر باشعور انسان کا دل خون کے آنسو رویا۔ اس سانحے میں جس بے دردی کے ساتھ معصوم بچوں کو قتل کیا گیا اور ظلم کی تاریخ رقم کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی۔
معصوم طلباء کے خون نے ملت پاکستان کو شعور بخشا، عوام کے بھرپور مظاہروں، عوامی طاقت کے سامنے حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔ جس کے تحت ہر طرح کے دہشتگردوں کو سزائیں دی جانی تھیں، لیکن حکومت پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایکشن میں سست نظر آرہی ہے، ایسے لگتا ہے کہ جیسے شاید دہشت گردوں کی حامی سیاسی پارٹیاں اس نیشنل ایکشن پلان کو فائلوں کی نظر کر دینا چاہتی ہیں۔ آپریشن ضرب عضب جسے پورے ملک میں پھیلانے کی بات کی گئی تھی، اسے کمزور کرنے کے لئے دہشت گردوں کے حامی میدان میں آگئے ہیں۔ وہ نیشنل ایکشن پلان کو مدارس اور مذہب کے خلاف قرار دے کر دہشگردوں کو مزید کھلا چھوڑ کر ملت پاکستان کے خون سے اس دھرتی ماں کو رنگین کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف پورے پاکستان میں شہداء کے ورثاء جو ہمیشہ سے طالبان اور ملک دشمن عناصر کے خلاف سراپا احتجاج تھے اور آپریشن کا مطالبہ کرتے تھے، آج بھی وہ آپریشن کی کامیابی کے لئے پاکستان فوج کے موقف کی تائید کرتے ہیں، ان کو گرفتاریوں کے ذریعے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ یہ قانون تو کسی دنیا کے ملک میں نہیں ہے کہ مقتولین کے ورثاء کو اپنے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائے، کیونکہ وہ حکومت وقت کو دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا کہتے ہیں۔
محترم وزیراعظم صاحب جو کہتے ہیں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور آخری دہشتگرد کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ ان کی دہشت گردوں سے مراد کیا واقعی ملک دشمن عناصر کہ جو ملک کو بدامنی اور معاشی بدحالی کی طرف لے کر جا رہے ہیں یا پھر ان کی مراد ان کے سیاسی مخالفین ہیں، کیونکہ دہشت گرد گروہ آج بھی پاکستان کے اندر دندناتے پھر رہے ہیں، تکفیری سوچ رکھنے والے عناصر کہ جو پاکستان کے آئین و قانون کو نہیں مانتے اور اداروں کو بائی پاس کرتے ہیں، وہ اسی طرح سے ریلیوں اور جلسوں کے ذریعے شیعہ و سنی مسلمانوں کی تکفیر کر رہے ہیں، ان عناصر کو حکومتی تحفظ بھی حاصل ہے، تو ملت پاکستان کو بتایا جائے کہ حکمران کس جنگ میں مصروف ہیں۔؟؟؟؟
حکومت پنجاب اپنے سیاسی مخالفین کو اپنے انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے، جس کی مثالیں ہر خاص و عام کے سامنے ہیں، ماڈل ٹاون لاہور میں معصوم اور نہتے شہریوں کا بے دریغ قتل عام اور پھر انہی کے قائدین و کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا، اب پورے پنجاب میں مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل و پاکستان عوامی تحریک کے قائدین و کارکنان کی بے جا گرفتاریاں جاری ہیں، جبکہ پنجاب بھر میں دہشتگردی میں ملوث گروہ سرعام پھر رہے ہیں۔ آخر صرف انہی پارٹیوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو آئین و قانون کی حدود میں رہ کر اپنے جائز حقوق کی بات کرتی ہیں دراصل پنجاب حکومت انتقامی سیاست سے آپریشن ضرب عضب کی عوامی حمایت کو کمزور کر رہی ہے۔ فوج کی عوامی پذیرائی میں کمی لانے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اس سے دہشتگردوں کو ریلیف ملے گا اور وہ مزید دہشتگردانہ کارروائیاں کرسکیں گے۔
نیشنل ایکشن پلان جو تمام سیاسی و مذہبی پارٹیوں کی باہمی مشاورت سے عمل میں لایا گیا اور یہ فیصلہ پاکستان کے وسیع تر مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کیا گیا، تاکہ اس منحوس دہشتگردی کے فتنہ کو جڑوں سمیت ختم کیا جائے، لیکن طالبان کے سیاسی ونگ میدان میں آگئے اور انہوں نے ایکشن کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کر دیئے، جس کی وجہ سے تاحال عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ پاکستان میں قابل اعتماد ادارہ افواج ہیں، جو عوام کی امیدوں کا مرکز ہیں، طالبان حامی سیاسی پارٹیاں اب فوج کے خلاف زہر اگلنا شروع ہوگئی ہیں اور فوجی عدالتوں کے خلاف رٹ درج کرا دی گئی ہے، کیونکہ دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ ان کو سپورٹ کرنے والے بھی اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ اگر فوجی عدالتیں کام نہیں کریں گی تو کیا عوام خود اپنے دشمنوں سے انتقام لے، کیونکہ سول عدالتوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ دہشتگردوں کو بڑے عزت و احترام سے بری کر دیتی ہیں، جس کا نتیجہ سانحہ پشاور اور سانحہ شکار پور کی شکل میں قوم کو بھگتنا پڑتا ہے، جبکہ کچھ گروہ پاکستان کے آئین و قانون کو پیروں تلے روندتے ہوئے اپنی من مانی کرتے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو پوری قوم اسلحہ اٹھا لے گی، تو کیا حکومتیں اور طالبان کے سیاسی ونگ یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں خانہ جنگی ہو۔ پہلے ہی ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے، مزید اس کو اندھیروں میں نہ دھکیلا جائے۔
اگر نیشنل ایکشن پلان کے تحت سانحہ پشاور کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا تو سانحہ شکار پور اور پھر امامیہ مسجد پشاور کے اندر قیامت صغریٰ برپا نہ ہوتی اور معصوم نمازیوں کے خون سے خانہ خدا رنگین نہ ہوتا۔ لہذا وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتیں بھی اس کھلم کھلا دہشتگردی میں برابر کی شریک ہیں۔ سانحہ شکار پور میں شہید ہونے والے افراد کے لواحقین، جن کو انصاف نہیں دیا گیا اور سانحہ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا، تو وہ احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن وزیراعلٰی سندھ مفاہمت کی بجائے انتقامی کاروائی پہ اتر آئے ہیں اور لانگ مارچ کو روکنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں، جبکہ عوامی امن و عامہ کی ذمہ داری ریاست کے اولین فرائض میں سے ہے۔ لہذا انہیں چاہیے کہ وہ لواحقین شہداء کے زخموں پہ مزید نمک چھٹرکنے کی بجائے ان کے لئے ڈھارس کا سبب بنیں، سندھ بھر میں فوجی آپریشن کیا جائے اور بلاتفریق تمام دہشتگروں کے خلاف کارروائی کی جائے، چاہے وہ مذہبی دہشتگرد ہوں یا قومی و لسانی یا صوبے کی بنیاد پر کی جانے والی دہشتگردی ہو۔
ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان انتقامی سیاست کی بجائے اصل دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے گی، تاکہ ملک عدم استحکام کی حالت سے باہر آسکے۔ بجائے اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کے اصل دشمن کی تشخیص کی جائے، لیکن برابری کی پالیسی کو نہ اپنا جائے کہ جس کے تحت دہشگردوں کے خلاف اٹھنے والے آواز کو دبانا اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنا ہے۔ اگر حکومتی اداروں کو کسی پہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہے تو وہ ان پارٹیوں سے بات کریں، بجائے اس کے کہ وہ قائدین اور کارکنان کو ہراساں کرتے رہیں۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ جس طرح سے پاک فوج نے سانحہ پشاور میں ملوث افراد کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے، اسی طرح سانحہ شکار پور اور سانحہ امامیہ مسجد پشاور میں ملوث دہشتگردوں کو بھی کیفر کردار تک پہچایا جائے گا۔