:
حضرت آیت اللہ العظمی سیستانی عراقی مجاہدین کو اپنی نصیحتوں میں ان کو اپنا عزیز قرار دیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ کفار مرتدین اور خوارج کے خلاف جنگ اور اپنی زندگی میں حضرت علی علیہ السلام کی سیرت کی اقتدا کریں ۔
عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق ،عراق میں داخلی جھڑپوں اور عراق کے بعض حصوں میں داعش کے جرائم کے چلتے ہوئے اور داعش کو ختم کرنے کی بین الاقوامی اتحاد کی کاروائیوں کے ناکام ہو جانے کے بعد حضرت آیت اللہ العظمی سیستانی نے عراقی مجاہدین کے نام ایک خط میں ان سے تاکید کی کہ وہ چند نصیحتوں پر عمل کریں ۔
اس خط کا پورا متن درج ذیل ہے :
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على خير خلقه محمد وآله الطيبين الطاهرين.
مجاہدین عزیز کہ جنہیں خداوند عالم نے محاذ جنگ پر جا کر حملہ آوروں کے خلاف جنگ کے لیے چنا ہے وہ یاد رکھیں :
جہاد کے حدود کی رعایت فضل الہی کے حاصل ہونے کی شرط
۱ ۔ خداوند متعال نے جس طرح مومنوں کو جہاد کی دعوت دی ہے اور ان کو دین کا ستون قرار دیا ہے اور مجاہدین کو گھر میں بیٹھ جانے والوں پر برتری عطا کی ہے ،اسی طرح اس نے جہاد کے آداب و شرائط مقرر فرمائے ہیں کہ جو حکمت اور فطرت کے مطابق ہیں کہ آپ کو ان آداب کو جاننا چاہیے اور ان کی رعایت کرنا چاہیے اور جو شخص بھی ان حدود کی مناسب طریقے سے رعایت کرے گا وہ خدا کے فضل اور اس کی برکتوں کا حقدار ہو گا ،اور جو شخص ان آداب کی رعایت نہیں کرے گا اس کے اجر وثواب میں کمی کر دی جائے گی اور وہ اپنی آرزو تک نہیں پہنچے گا ۔
جہاد کے عام آداب
۲ ۔ جہاد کے کچھ عام آداب ہیں کہ جن کی یہاں تک کہ کفار کے ساتھ جنگ میں رعایت کی جانی چاہیے ،پیغمبر ﷺ بھی بھی جہاد پر جانے سے پہلے اپنے اصحاب کو ان کی وصیت کیا کرتے تھے اور امام صادق علیہ السلام سے بھی ایک صحیح حدیث میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا : جب بھی رسول خدا کچھ افراد کو جنگ کے لیے بھیجنا چاہتے تھے ان کو اپنے پاس بلاتے تھے اور اپنے سامنے بٹھا کر فرماتے تھے : خدا کے نام سے اور اس کی راہ میں اور رسول خدا کی سنت پر جنگ کے لیے روانہ ہو جاو : غلو سے کام نہیں لینا مقتولین کے اعضاء نہ کاٹنا ، دنہ دینا بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا اور جب تک ضروری نہ ہو درختوں کو نہ کاٹنا ۔
باغی مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے آداب
۳ ۔ باغی اور سرکش مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے بھی آداب ہیں ، جو ایسے ہی دنوں کے لیے حجرت علی علیہ السلام کی طرف سے ہم تک پہنچے ہیں ، اور آپ نے بھی اپنی سیرت میں ہمیشہ ان آداب کی رعایت کی تھی اور اپنی تقریروں میں اپنے اصحاب اور دوستوں کو ان کی وصیت فرمایا کرتے تھے اور ان آداب کی رعایت پر پوری امت اسلام کا اجماع ہے، اور یہ خدا اور ان کے درمیان حجت ہے آپ کو بھی چاہیے کہ ان آداب اور حضرت علی علہ السلام کی سیرت پر عمل کریں ۔امام علی علیہ السلام نے اپنے ایک کلام میں پیغمبر ﷺ کے حدیث ثقلین اور حدیث غدیر اور ان دو کے علاوہ کے بارے میں وصیتوں کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا : اپنے پیغمبر کے اہل بیت کی طرف دیکھو اور ان کی خصوصیات کی پابندی کرو اور ان کی پیروی کرو اسی وہ آپ کو راہ ہدایت سے خارج نہیں کریں گے اور آپ کی گمراہی کا باعث نہیں بنیں گے ،پس اگر وہ جائیں تو آپ بھی جاو اور اگر وہ اگر وہ رک جائیں تو آپ بھی رک جاو اور ان سے آگے نہ بڑھو اور نہ ان سے پیچھے رہو کہ دونوں صورتوں میں ہلاک ہو جاو گے ۔
مشکوک مواقع پر غور و فکر
۴ ۔ جانوں کے سلسلے میں اور انسانوں کو قتل کرنے کے سلسلے میں خدا کی رعایت کرو تا کہ کسی بھی حالت میں خدا جس کو قتل کرنے کو جائز قرار نہیں دیتا اس کو قتل نہ کرو کہ سب سے بڑا گناہ بے گناہ انسانوں کو قتل کرنا ہے اور سب سے بڑی نیکی ان کی جان کی حفاظت ہے اور خدا وند متعال نے بھی اپنی کتاب میں اس کے بارے میں تاکید کی ہے ۔جان لو کہ بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کے آثار دنیاوی زندگی میں اور اس کے بعد بے حد خطر ناک ہیں اور امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت میں آیا ہے کہ آپس سلسلے میں بہت احتیاط کیا کرتے تھے اور مالک اشتر کے نام اپنے خط میں بھی آپ نے فرمایا تھا راہ حلال کے علاوہ خون بہانے سے بچو کہ کوئی چیز بھی اس کی طرح کے سخت عذاب اور بھیانک نتائج کی حامل نہیں ہو گی اور نعمت کے رک جانے اور موت کے نزدیک ہونے کا باعث نہیں ہو گی ۔ قیامت کے دن انسانوں کے خون بہائے جانے کا فیصلہ خود خدا کرے گا ۔لہذا اپنی طاقت سے نا حق خون بہانے میں استفادہ نہ کرواس لیے کہ یہ چیز تمہاری حکومت کے کمزور ہو جانے بلکہ نابود ہو جانے کا باعث ہو گی اور اس سلسلے میں تمہارا کوئی بھی بہانہ خدا کے نزدیک اور میرے نزدیک قابل قبول نہیں ہو گا ۔اس لیے کہ اس کی سزا قصاص ہے ۔
پس اگر آپ کو کوئی مشکوک مورد دکھائی دے کہ جہاں ااپ کو شک ہو کہ قتل میں غلطی ہوئی ہے یا آپ کو ڈر لگا ہو کہ آپ کا تیر درست نشانے پر نہیں لگے گا اور بے گناہ لوگوں کے قتل ہونے کا باعث ہو گا تو اس وقت آپ احتیاط کریں ۔
بوڑھوں بچوں اور عورتوں کا لحاظ رکھنا
۵ ۔ دشمنوں کے سلسلے میں حرام کاموں کے ارتکاب میں خدا کے حکم کی رعایت کریں ،خاص کر بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے سلسلے میں چاہے یہ آپ کے دشمنوں کے رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں پھر بھی ان کے احترام کی رعایت ہونی چاہیے صرف دشمنوں کے اموال کو چھوڑ کر کہ اس پر تصرف ہو نا چاہیے ۔
رہائشی مکانوں کو مسمار نہ کرو
امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت بھی یہ تھی کہ اپنے ساتھیوں خاص کر خوارج کے اصرار کے باوجود دشمنوں کے رشتے داروں ان کی عورتوں اور ان کے گھروں سے کوئی سرو کار نہیں رکھتے تھے اور فرماتے تھے : مردوں نے ہمارے ساتھ جنگ کی اور ہم نے بھی جنگ کی ،لیکن عورتوں اور بچوں کو نہیں چھیڑا جا سکتا لیکن تمام وہ اموال اور آلات کہ جن سے انہوں نے آپ کے خلاف جنگ میں استفادہ کیا اور چیزیں وج کی ہیں وہ آپ کی ہیں اور جو کچھ ان کے گھروں میں ہے وہ ان کے گھر والوں کی میراث ہے اور آپ کا گھروں کے اندر جو اموال ہیں ان میں اور بچوں اور عورتوں کے سلسلے میں کوئی حق نہیں ہے ۔
تہمت سے بچیں اور حرام چیزوں کو مباح قرار نہ دیں
۶ ۔ دھیان رکھیں کہ حرام چیزوں کو مباح قرار دینے میں لوگوں کے دین پر تہمت نہ لگائیں جیسا کہ ابتدائے اسلام میں خوارج نے کیا تھا اور ان فقہ سے نابلد ماننے والے ہمارے زمانے میں کر رہے ہیں اور بعض صحیح روایات سے غلط طور پر اعتماد کر کے خوارج والے جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کو انہوں نے مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے ۔
شہادتین کا اقرار کرنے والا مسلمان ہے / ہر بدعت کفر کا باعث نہیں بنتی
جان لو کہ شہادتین کا اقرار کرنے والا مسلمان ہے اور اس کا خون اور مال محترم ہے چاہے وہ گمراہ اور بدعت گذار ہی کیوں نہ ہو ؛ اس لیے کہ ہر بدعت کفر کا باعث نہیں بنتی اور ہر بدعت اسلام کے مسلمان سے جدائی کی وجہ نہیں ہوتی ،بسا اوقات انسان گناہ اور فساد کا مرتکب ہونے کی وجہ سے ،حالانکہ وہ مسلمان ہے مگر قتل کی سزا کا حق دار ہوتا ہے ۔
خدا وند متعال مجاہدین سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے :” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَتَبَيَّنُواْ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا” ۔حضرت علی علیہ السلام سے بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں کہ کہ آپ اپنے تمام دشمنوں کو کافر قرار دینے سے منع فرمایا کرتے تھے ۔کیونکہ آپ کے لشکر میں جو خوارج تھے وہ یہی چاہتے تھے ۔بلکہ آپ فرماتے تھے : یہ ایسے لوگ ہیں کہ جو شک میں مبتلا ہیں ،اگر چہ یہ چیز ان کے عمل کو جائز قرار نہیں دے سکتی ۔معتبر روایت میں امام صادق علیہ السلام اور ان کے پدر بزرگوار سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا : علی علیہ السلام اپنے دشمنوںمیں سے کسی کو منافق اور مشرک نہیں مانتے تھے بلکہ فرماتے تھے : وہ ہمارے بھائی ہیں کہ جنہوں نے بغاوت کی ہے اور اپنے دشمنوں کے سلسلے میں فرماتے تھے : ہم نے ان کے ساتھ اس لیے جنگ نہیں کی کہ وہ ہمیں کافر کہتے تھے یا ہم انہیں کافر مانتے تھے ۔
غیر مسلمانوں سے متعرض ہونا خیانت ہے
۷ ۔ غیر مسلمان کسی بھی دین و مذہب کے ہوں ان سے تعرض کرنے سے پرہیز کرو کہ وہ مسلمانوں کے امن کی پناہ میں ہیں اور جو بھی ان کو چھیڑے گا وہ خیانتکار ہے ،اور خیانت خدا کے دین ،فطرت اور قضاوت میں سب سے برا عمل ہے اور خدا وند معال نے غیر مسلموں کے بارے میں فرمایا ہے :” لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ” ،پس مناسب نہیں ہے کہ مسلمان اس بات کی اجازت دے کہ غیر مسلمانوں کی حرمتوں سے کہ جو ان کی پناہ میں تعرض کیا جائے بلکہ مسلمان ان کے سلسلے میں اتنی ہی غیرت سے کام لیں جتنی وہ اپنے گھر والوں کے بارے میں لیتے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام کی سیرت میں آیا ہے کہ جب معاویہ نے بنی غامد کے سفیان بن عوف کو عراق کے کچھ حصوں میں غاوت کو دبانے کے لیے بھیجا اور انبار کے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کو چھیڑا تو امیر المومنین علیہ السلام اس کے اس کام سے بہت غضب ناک ہوئے اور اپنی تقریر میں فرمایا : بنی غامد کے اس شخص نے انبار والوں پر حملہ کیا اور حسان ابن حسان البکری کو قتل کر ڈالا اور تمہارے لشکر کو ان سر حدوں سے نکال دیا کہ جو ان کے حصے میں تھیں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کے بعض لشکر والوں نے مسلمان یا ہمارے ساتھ معاہدہ رکھنے والے غیر مسلموں کی عورتوں کو چھیڑا ہے ور ان کے ہار اور زیورات چھین لیے ہیں اور اس کے بعد بھی وہ مال لوٹ کر لے گئے ہیں اور کسی نے ان سے کچھ نہیں کہا اور ان کو قتل نہیں کیا ؛ لیکن اگر مرد مسلمان اس کام کے صدمے سے مر جائے تو اس کی ملامت نہیں کی جائے گا بلکہ میری نظر میں وہ اس کا سزاوار ہے ۔
مسلمانوں کے مال پر تصرف جائز نہیں ہے
۸ ۔ لوگوں کے اموال کے سلسلے میں خدا سے ڈریں کہ ایک مسلمان کا مال دوسرے مسلمان پر جائز نہیں ہے ،مگر اسی صورت میں کہ جب وہ جان و دل سے راضی ہو پس جو بھی زور زبر دستی سے مسلمان کے مال کو ثھینے گا گویا اس نے آگ میں ہاتھ ڈالا ہے ،خدا وند متعال فرماتا ہے:” إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا”اور پیغمبر ﷺ کی حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا : جو شخص نا حق کسی مسلمان کا مال چرائے خدا وند متعال اس سے ناراض رہے گا اور اس کی نیکیوں کو نہیں لکھے گا جب تک وہ توبہ نہ کر لے اور اس کا مال واپس نہ کر دے ۔
لوگوں کے مال واپس کرنا
امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت میں آیا ہے کہ آپ جنگ میں اپنے دشمنوں کے مال کو حلال سمجھنے سے منع فرمایا کرتے تھے ،اس مال کو چھوڑ کر کہ جو ان کی لشکر گاہ میں ملتا تھا اور دشمنوںمیں سے جو شخص بھی دلیل سے ثابت کر دیتا تھا کہ لشکر گاہ میں جو مال ملا ہے وہ اس کا ذاتی مال ہے تو وہ مال اسے لوٹا دیا جاتا تھا ۔ایک روایت میں روان ابن حکم سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا : جب علی علیہ السلام نے بصرے میں ہمیں شکست دی تو لوگوں کے اموال انہیں واپس کر دیے جو شخص دلیل پیش کرتا تھا وہ اسے مال لوٹا دیتے تھے اور جو دلیل نہیں پیش کر سکتا تھا اس کو قسم دیتے تھے ۔
الہی محرمات کی رعایت
تمام محرمات اور محرمات کے زبان و ہاتھ سے ارتکاب میں خدا سے ڈریں اور کسی اور کے گناہ میں کسی اور کو نہ پکڑیں کیونکہ خدا وند متعال فرماتا ہے : ولا تزر وازرۃ وزر اخری ،کسی کو شک و گمان کی بنا پر نہ پکڑو جب تک مطمئن نہ ہو جاو اس لیے کہ اطمئنان احتیاط کا باعث ہوتا ہے ور شک اور گمان دوسروں پر بلا وجہ زیادتی کا سبب بنتا ہے ،اور اس بات کا دھیان رکھو کہ کسی سے تمہاری دشمنی اس بات کا باعث نہ بنے کہ تم اپنے ہاتھ حرام میں آلودہ کر لو ،اس لیے کہ خدا وند متعال فرماتا ہے :” وَلا يَجرِمَنَّكُم شَنَآنُ قَومٍ عَلىٰ أَلّا تَعدِلُوا اعدِلوا هُوَ أَقرَبُ لِلتَّقوىٰ.”
مقتولین کے اعضاء نہ کاٹو
امیر المومنین علیہ السلام سے ہی نقل ہوا ہے کہ آپ نے جنگ صفین میں اپنے ایک خطبے میں اپنی نصیحتوں میں فرمایا : مقتولین کے اعضاء نہ کاٹو اور جب ان کے گھروں کے پاس پہنچو تو ان کے پردے نہ ہٹاو اور کسی کے گھر میں مت جاو اور ان کے مال میں سے کچھ نہ اٹھاو مگر وہ مال جو لشکر گاہ میں ہو اور عورتوں کو تکلیف مت پہنچاو چاہے وہ تمہیں تمہارے امیروں اور تمہارے بزرگوں کو گالی ہی کیوں نہ دیں ۔روایت میں آیا ہے کہ کہ آپ نے جنگ جمل کے اختتام پر ایک بزرگ کے گھر کا رخ کیا اور دروازہ کھٹکھٹایا ،جب دروازہ کھلا تو تو آپ نے عورتوں کو دیکھا کہ جو گھر کے صحن میں رونے میں مشغول ہیں ،جب انہوں نے امام کو دیکھا تو فریاد کی کہ یہ ہمارے عزیزوں کا قاتل ہے لیکن آپ نے کچھ نہیں کہا اور اس کے بعد ان کمروں کی جانب اشارہ کیا کہ جن میں ان کے بزرگ کہ جو حضرت کے دشمن تھے جیسے مروان ابن حکم اور عبد اللہ بن زبیر چھپے ہوئے تھےاور فرمایا : اگر مجھے تمہارے عزیزوں کو مارنا ہوتا تو اس کمرے میں چھپے ہوئے افراد کو قتل کر دیتا ۔
دشمنوں کو گالی نہ دیں
امیر المومنین علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ جب آپ نے سنا کہ آپ کے اصحاب جیسے حجر ابن عدی اور عمرو بن الحمق جنگ صفین کے زمانے میں شام والوں کو گالی دیتے ہیں ،تو فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ تم گالی دو بلکہ بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے اعمال اور ان کے حال کو بیان کرو اور گالی دینے کے بدلے ان سے یہ کہو : خدایا ہماری اور ان کی جان کی حفاظت فرما اور ہمارے درمیان اصلاح فرمادے اور ان کی ہدایت فرما تا کہ نادان لوگ حق کو پہچان لیں اور گمراہ لوگ دشمنی سے دست بردار ہو جائیں ۔انہوں نے کہا ،اے امیر المومنین ہم آپ کی نصیحت پر عمل کریں گے ۔
۱۰ ۔ اس بات کا خیال رکھو کہ کسی قوک کو جب تک وہ تمہارے ساتھ جنگ کی حالت میں نہ ہو ان کے حقوق سے محروم نہ کرو چاہے وہ تم سے بغض ہی کیوں نہ رکھتے ہوں کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کی سیرت میں آیا ہے کہ آپ اپنے مخالفین کے ساتھ تمام مسلمانوں جیسا سلوک کرتے تھے البتہ جب تک کہ وہ جنگ نہ کریں اور آپ کبھی بھی ان کے ساتھ جنگ کا آغاز نہیں کرتے تھے جب تک کہ وہ آغاز نہ کر دیں ۔آپ ایک زمانے میں کوفے میں خطبہ دے رہے تھے ،اتنے میں خوارج میں سے ایک گروہ اٹھا اور بولا (لا حکم إلا لله) ،آپ نے فرمایا ؛ بات درست ہے مگر اس سے نادرست مطلب نکالا جا رہا ہے ،آپ کی میرے نزدیک تین خصوصیات ہیں : ۱ ۔ ہم آپ کو مسجدوں میں نماز پڑھنے سے نہیں روکیں گے ،۲ ۔ جب تک ہمارے ساتھ ہو ہم آپ کو خراج سے محروم نہیں کریں گے ،۳ ۔ آپ کے ساتھ اس وقت تک جنگ نہیں کریں گے جب تک آپ نہ شروع کریں ۔
شبہات کو بر طرف کرنا
۱۱ ۔ یہ جان لیجیے کہ آپ کے زیادہ تر دشمن آپ کے خلاف جنگ میں شبہ کا شکار ہوئے ہیں اور انہوں نے دھوکہ کھایا ہے ،پس ایسا کام نہ کریں کہ تمہارے دشمنوں کے شبہات لوگوں کے ذہنوں میں تقویت پا جائیں اور لوگ ان کے ساتھ ملحق ہو جائیں ،بلکہ حسن سلوک ،نصیحت ،عدالت اور در گذر اور ظلم سے بچتے ہوئے ایسا کام کریں کہ دشمنوں کے شبہات آپ کے بارے میں بے اثر ہو جائیں اس لیے کہ جو شخص کسی مسلمااان کے ذہن سے شبہے کو بر طرف کرے گا گویا اس نے اس کو زندہ کیا ہے اور جو کسی کے ذہن میں شبہ پیدا کرے گویا اس نے اس کو قتل کیا ہے ۔
جنگ سے پہلے اتمام حجت
آئمہء اہلبیت علیھم السلام کی سیرت بھی یہ تھی کہ شبہ دور کرنے پر دھیان دیتے تھے تا کہ اپنے خدا کے نزدیک سر بلند ہوں اور امت کی تربیت کریں اور امور کے نتائج کی رعایت کریں اور لوگوں اور خاص کر بعد کی نسلوں کے کینے کا باعث نہ بنیں ۔بعض احادیث میں امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے جنگ جمل میں جس وقت لشکر اپنی جگہ سے حرکت کر چکے تھے اپنے اصحاب سے فرمایا : جب تک ہمارے اور ان کے اور خداوند عالم کے درمیان عذر موجود ہے ان کے ساتھ جنگ کرنے میں جلدی نہ کرو اور اہل بصرہ سے خطاب کرتے ہوئے بھی فرمایا : اے بصرے والو کیا تم مجھے ظالم حاکم سمجھتے ہو ؟ انہوں نے کہا ،نہیں ،تو کیا میں نے کسی قسم کو توڑا ہے ؟ ،انہوں نے کہا ،نہیں ،فرمایا کیا میں اپنے لیے اور اپنے اہل بیت کے لیے دنیا کو جمع کیا ہے کہ تم نے خشمگین ہو کر پیمان کو توڑ دیا ہے ؟ انہوں نے کہا ،نہیں فرمایا کیا میں نے خدا کی حدود کو صرف تمہارے درمیان اجرا کیا ہے اور دوسروں کے سلسلے میں معطل کیا ہے ؟ کہا ،نہیں اور اسی طرح کی باتیں کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے پوچھی تھیں حقیقت میں آپ کا مقصد ان باتوں سے امور کا روشن ہونا اور شبہات کا بر طرف ہونا تھا تا کہ سب حجت تمام ہو جائے ۔پس کسی بھی قوم کے ساتھ جنگ اسلام میں جائز نہیں ہے مگر یہ کہ ان پر حجت تمام ہو جائے اور یہ واضح ہو جائے کہ ہم نے پیمان نہیں توڑا ہے ۔
ظلم اور اس کے نتائج کے سلسلے میں متوجہ کرنا
۱۲ ۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ ظلم میں اثر ہے اور عدالت میں اثر نہیں ہے ،کیونکہ یہ سوچ امور پر سرسری نگاہ ڈالنے ،امور کے دور رس اور متوسط نتائج اور عواقب پر بے توجہی اور امتوں کی تاریخ اور زندگی کے بارے میں بے اطلاعی سے حاصل ہوتی ہے اس لیے کہ یہ سب چیزیں ہمیں ظلم ،قتل ، ،دشمنوں کے جذبات کا بائیکاٹ اور سماج کو در پیش خطروں کے بارے میں ہمیں متنبہ کرتے ہیں ،اور حدیث شریف میں آیا ہے : جس کے لیے عدالت کاتحمل دشوار ہو ظلم کا تحمل اس کے لیے اور زیادہ دشوار ہوتا ہے ،موجودہ دور کی تاریخ میں بھی غور کرنے کے لیے بہت ساری عبرتیں موجود ہیں ،اس لیے کہ بعض حکام اپنی حکومت کی ساکھ کو مضبوط کرنے کے لیے ظلم کا سہارا لیتے تھے اور سیکڑوں انسانوں پر ظلم کرتے تھے یہاں تک کہ جس راہ سے انہیں توقع نہیں ہوتی تھی خدا انہیں اسی راہ سے نابود کرتا تھا ۔
جنگ میں پہل نہ کرنا
۱۳ ۔ حتی اگر خود داری ، غور و فکر ،اتمام حجت ، انسانی اقدار اور قونین کی رعایت ،کا اگر ہمیں قدرے نقصان بھی ہو پھر بھی اس کام کی برکت اور عاقبت اچھی ہوگی اور آئمہءعلیھم السلام کی سیرت میں بھی اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں یہاں تک کہ وہ اس وقت تک مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں شروع کرتے تھے جب تک وہ جنگ شروع نہ کر دیں ،حدیث میں آیا ہے جنگ جمل کے دن جب لشکر والے نکلے تو تو امیر المومنین کے منادی نے فریاد بلند کی تم میں سے کوئی جنگ کا آغاز نہ کرے جب تک کہ میں نہ کہہ دوں ۔ بعض اصحاب نے کہا انہوں نے تیروں کی بارش کی ہے اور ہمارے کچھ افراد کو شہید کیا ہے ۔حضرت نے فرمایا ،ابھی رکو ،انہوں نے دوبارہ تیر چلائے اور ہمارے کچھ افراد کو قتل کیا ہے ،ہم نے کہا اے امیر المومنین وہ ہمیں مار رہے ہیں ۔حضرت نے فرمایا : خدا کے نام اور اس کی مدد سے جاو ۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی روز عاشور ایسا ہی کیا تھا ۔
خیر خواہی پر مبنی سلوک
۱۴ ۔ جن لوگوں کا تم سامنا کرو ان کے ساتھ خیر خواہی پر مبنی سلوک کرو ، اور ان کی حمایت کرو تا کہ وہ تمہارا ساتھ دیں اور تمہاری مدد کریں بلکہ جہاں تک آپ کر سکتے ہو کمزوروں کی مدد کرو کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اور ان کے ساتھ مہربانی اور ہمدردی سے پیش آو اور جان لو کہ تم خداوند سبحان کے حضور میں ہو اور تمہارے افعال لکھے جا رہے ہیں اور وہ تمہاری نیتوں سے آگاہ ہے ۔
واجب نمازوں کا ادا کرنا
۱۵ ۔ واجب نمازوں کو ادا کرنے سے غافل نہ ہونا ، کہ مسلمان کے لیے خدا کے حضور میں نماز سے بہتر کوئی عمل نہیں ہے اور نماز وہ ادب ہے کہ جس کی انسان کو اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے رعایت کرنا چاہیے ۔نماز دین کا ستون اور قبولی اعمال کا معیار ہے ،اور خدا نے اس میں سخت دشوار اور جنگی حالات میں اس میں تخفیف دی ہے ،یہاں تک کہ اگر کوئی نماز کے پورے وقت میں جنگ میں مشغول ہو وہ ہر رکعت کے بدلے میں ایک تکبیر پر اکتفا کر سکتا ہے ،چاہے انسان رو بقبلہ نہ بھی ہو ۔ خدا فرماتا ہے :” حَافِظُواْ عَلَى الصَّلَوَاتِ والصَّلاَةِ الْوُسْطَى وَقُومُواْ لِلّهِ قَانِتِينَ. فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ” .
اس کے علاوہ خدا نے مومنوں سے فرمایا ہے کہ اپنی جان اور اپنے ہتھیاروں کا خیال رکھیں ،اور سب نماز نہ پڑھیں بلکہ باری باری نماز پڑھیں ۔امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت میں بھی آیا ہے کہ وہ اپنے اصحاب کو نماز کی وصیت کرتے تھے اور ایک معتبر حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام نقل کیا گیا ہے کہ کہ آپ نے جنگ کی حالت میں نماز خوف کے بارے میں فرمایا ،جس کا رخ جس طرف ہو وہ اشارے سے نماز پڑھے چاہے وہ دشمن کے ساتھ دستو گریباں ہی کیوں نہ ہو اس لیے کہ امیر المومنین کے لشکر والوں نے جنگ صفین نماز ظہر ،عصر اور مغرب و عشاء کو صرف”تکبیر و لا اله الا الله و سبحان الله و الحمدلله” اور دعا کے ساتھ ادا کیا تھا اور یہی ان کی نماز تھی اور حضرت نے بھی ان کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا ۔
مشکل حالات میں خدا کی یاد
۱۶ ۔ خدا کو کثرت سے یاد کرو ،اور قرآن پڑھو اور خدا کی لقا اور اس کی جانب واپسی کو یاد کرو جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام بھی ایسے ہی تھے ،اور آپ سے روایت کی گئی ہے کہ اپنے ذکر اور ورد کے اس قدر پابند تھے کہ شب صفین میں دو صفوں کے درمیان آپ کے لیے چٹائی بچھائی گئی اور آپ نماز میں مشغول ہو گئے جب کہ تیر آپ کے اطراف سے گذر رہے تھے لیکن حضرت کو ان کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔
اسلام کے لیے زینت کا باعث بنو
۱۷ ۔ خدا سے مدد مانگو کہ آپ کا سلوک جنگ میں اور صلح میں دوسروں کے ساتھ پیغمبر اور اہل بیت علیھم السلام جیسا ہو تا کہ اسلام کے لیے زینت اور قدر کا باعث بنو ؛ اس لیے کہ اس دین کی بنیاد نور فطرت ،عقل کی گواہی اور اخلاق پر رکھی گئی ہے ،اور اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے پیغمبر نے عقل اور اخلاق کا پر چم بلند کیا تھا اور لوگوں کو دعوت دی تھی کہ اس زندگی میں غورو فکر کریں اور دنیا کے احوال سے عبرت حاصل کریں اور انہوں نے اپنے تشریعی نظام میں بھی عقل کے مدفون خزانوں اور قواعد فطرت کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ۔ خدا وند متعال فرماتا ہے :” وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا. فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا. قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا. وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا” اور امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں خدا نے اپنے پیغمبروں کو ایک کے بعد ایک کر کے لوگوں کے درمیان بھیجا تا کہ پیمان فطرت لوگوں کو یاد دلائیں اور ان کو خدا کی بھولی ہوئی نعمتوں کی یاد دلائیں اور حجت کو ان پر تمام کریں اور عقل میں چھپے ہوئے خزانوں کو ابھاریں اور اگر مسلمان ان باتوںمیں اور تعلیمات میں غورو فکر کرتے اور ان پر عمل کرتے تو ان پر برکتیں نازل ہوتیں بعض حوادث اور مشکوک نصوص پر اعتماد کرنے سے پرہیز کرو کہ ان امور کو اہل علم پر چھوڑ دینا چاہیے تا کہ وہ ان کے مفاہیم کا استخراج کریں ۔
جلد بازی اور عجلت سے بچو
۱۸ ۔ غورو فکر اور دور اندیشی کے وقت عجلت اور جلد بازی سے بچوتا کہ تمہاری ہلاکت کا باعث نہ بنے ؛اس لیے کہ تمہارے دشمن کی زیادہ تر امید اس سے وابستہ ہے کہ تمہیں بغیر اس کے کہ تم غورو فکر کرو تمہیں اپنی مطلوبہ جگہ پر لے جائیں ،پس اپنی صفوں کو منظم کر لو اور مکمل طور پر ہمآہنگی پیدا کرو اور اپنے اقدامات میں جلدی نہ کرو مگر یہ کہ اس کو جانچ پرکھ لو اور اس کے مقدمات اور وسایل کو فراہم کر لو ،خدا وند عالم فرماتا ہے :(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ فَانفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انفِرُوا جَمِيعًا ) ، اورفرماتا ہے : (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ) ،آپ کو دشمنوں سے زیادہ طاقتور ہو نا چاہیے اس لیے کہ تم حق پر ہو اور جان لو کہ اگر تم کو درد ہوتا ہے تو ان کو بھی درد ہوتا ہے لیکن آپ کو خدا سے امید ہے جو ان کو نہیں ہے ،البتہ ممکن ہے کہ وہ بھی بے ہودہ اور موہوم امید سراب کی مانند رکھتے ہوں کہ جس سے ان کی پیاس میں ہی اضافہ ہو گا ان کی ساری دلیل شبہات ہیں اور ان کی آنکھیں اندھی اور نابینا ہیں ۔
اپنے حامیوں اور لوگوں کے خیر خواہ بنو
۱۹ ۔ رہ گئے وہ لوگ کہ جو تمہارے پاس ہیں اور دشمن نے ان کو اپنی ڈھال بنایا ہوا ہے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے حامیوں کے خیر خواہ بنیں اور ان کی فداکاری اور ان کے ایثار کی قدر کریں ان کو دکھ نہ دیںاور ان مجاہدوں کے سلسلے میں بے ہودہ بد گمانی کا شکار نہ ہوں اس لیے کہ خدا نے ایک دوسرے پر ایک دوسرے کا حق رکھا ہے ۔
اپنے بھائیوں کی غلطیوں سے در گذر کرو
جان لو کہ کوئی شخص بھی تمہارے بھائیوں کی طرح تمہاری فکر میں نہیں ہے اور تمہارا بھلا نہیں چاہتابشرطیکہ آپ صاف اور خالص ہوں ،اور اگر کسی وقت ضروری ہو تو ایک دوسرے کی غلطیوں سے در گذر کرو چاہے یہ غلطیاں بڑی ہی کیوں نہ ہوں اس لیے کہ جو شخص یہ سوچتا ہو کہ کوئی غیر اس کے گھروالوں سے یا ملک والوں سے اس کا زیادہ خیر خواہ ہے تو یہ اس کا وہم ہے ۔اور جو شخص کچھ امور کا تجربہ کرنا چاہےکہ جن کا پہلے سے تجربہ ہو چکا ہے وہ پشیمان ہو گا اور جان لو کہ اگر ایک دوسرے سے در گذر کرو گےتو آپ کو بڑا ثواب ملے گا اور خدا کے نزدیک آپ کا اجر برباد نہیں ہو گا بلکہ وہ تمہیں پورے کا پورا قیامت اور برزخ میں عطا ہو گا اور جو شخص مسلمانوں کے حامیوں کی حمایت کرے گایا ان کے اہل و عیال کی دیکھ بھال کرے تو اسے وہی اجر ملے گا جو مجاہدوں کو ملے گا ۔
بیہودہ تعصبات سے پرہیز
۲۰ ۔ سب لوگ دھیان رکھیں کہ بیہودہ تعصبات سے بچیں اور اچھا اخلاق اپنائیں کہ خدا نے انسانوںکو مختلف اقوام و ملل کی صورت میں پیدا کیا ہے تا کہ وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں اور اپنے مفادات اور تجربات کا ایک دوسرے کے ساتھ مبادلہ کریں اور ایک دوسرے کے مدد گار رہیں ،پس خیال رہے کہ بیہودہ اور خود پسندی پر مبنی افکارتمہارے دل میں جنم نہ لیں ،آپ دیکھیں کہ ماضی میں تمہیں اور دیگر اسلامی ملکوں کو کن حالات سے گذرنا پڑا ہے،اور ایک دوسرے کو چوٹ پہنچانے میں ان کی کس قدر طاقت صرف ہوئی ہے ،حالانکہ اس طاقت کو ان کی ترقی اور ان کے امور کی اصلاح میں صرف ہو نا چاہیے تھا ۔پس اس فتنے سے بچیں کہ جو صرف ظالموں کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا،یہ فتنہ کہ جس نے سر ابھارا ہے اس کو خاموش کرنے کی کوشش کریں اور اس کے شعلوں سے بچیں اور خدا کی رسی و مضبوطی سے پکڑ لیں اور متحد رہیں اور جان لیں کہ خدا نے اگر تمہارے دلوں کو خیر خواہ پایا تو جو کچھ تم سے لیا اس سے بہتر تمہیں عطا کرے گا اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔