تتشیع اس جہاں میں تنہا مسلک ہے جسکے پاس عالمی نظام کا نظریہ موجود ہے جسے ہم نہیں سمجھے، ہم نے پیش نہیں کیا بلکہ بات ہی نہیںکی اور یہ کام نہ کرنے کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں۔ عراق میں تکفیری گروہ کے آنے اور اُس مخصوص انداز سے آنے کے پیچھے کئی راز ہیں۔


تکفیری گروہ کی پنیری اور پیداوار:
یہ تکفیری گروہ عرب ملکوں نے بنایا ہے جسکی جڑیں پاکستان میں ہیں۔ اصل کیمپ پاکستان میں تھا، یہاں سے پنیری اُٹھا کر لیکر گئے اور شام میں جاکر کاشت کی، وہاں اسکو اگایا، بڑھایااور پھیلایا اور جب خوب پھیل گیا تو اُسکو منظم فوج بناکر عراق منتقل کردیا گیا۔ یہ لوگ جب شام میں تھے تو وہاںانہوں نے دعویٰ کیا تھاکہ اُنکا نام داعش ہے۔
پاکستانیوں کی عدم سنجیدگی:
پاکستانی بہت کم سنجیدہ ہوتے ہیں چونکہ اکثر کامیڈی پروگراموں، جُگت بازی، سنسنی پھیلانے اور سنسنی خیز کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ یہ دھرنے، مرنے اور ان چکروں میں زیادہ رہتے ہیں اور سنسنی پھیلا کر رکھتے ہیں۔ اس طرح سنسنی خیز انداز میں رپورٹ کرتے ہیں کہ دھرنا ہورہا ہے، ایک آدمی نلکا کھول کر نہا رہا ہے اور سارے چینل کیمرے لیکر اُسکو دکھانے لگ جاتے ہیں کہ ناظرین یہ دیکھئے یہ نہا رہا ہے، اس نے نلکا کھول دیا ہے، اب پانی آگیا ہے۔ یہ کیا طریقہ ہے اور یہ کیا میڈیا ہے! یہ کوئی انسانیت اور لب و لہجہ ہے؟ یہ انکا معمول کی باتوں کو کوریج دینے کا طریقۂ کار ہے۔ سو ٹی وی چینل ہیں جنہوں نے ساری قوم کو مفلوج اورپاگل بنا دیا ہے اور ان غیر سنجیدہ رویوں کے ذریعے سے اعصاب ختم کردئیے ہیں۔ لہٰذا اکثر لوگ ٹی وی دیکھ دیکھ کر پھر شام کو گولی کھا کر سوتے ہیں۔ آپکی کیا مجبوری ہے کہ یہ ساری ٹینشن دیکھتے ہو؟ آپ نہ دیکھیں، کچھ بھی نہیں ہوتا اور آپکو گولی کھائے بغیر ہی نیند آجائیگی۔
پاکستان میں خطرے کی گھنٹی:
پاکستان میں ابھی الارم بجا رہے ہیں۔ آپ ہر روز خبروں میں پڑھتے ہیں، اخبار میں آتا ہے اور شاید ٹی وی بھی بتاتا ہوگا۔ ہر روز اخبار میں آتا ہے کہ داعش پاکستان میں آرہا ہے، داعش نے یہاں باقاعدہ اپنی تنظیم سے رابطہ کرلیا ہے، داعش عنقریب بڑا خطرہ ایجاد کرنیوالا ہے، یہ روزانہ کی ترتیب کیساتھ خبریں آرہی ہیں اور پاکستان کیلئے ماحول بنا رہے ہیں اور یہ کام ابھی بڑھائیںگے۔ جب تک یہ کام آخری سطح پر نہیں پہنچ جائیگاہم شاید اُس وقت تک اس موضوع کو سنجیدہ نہ لیں۔
داعش کی شام سے عراق منتقلی:
عراق میں یہ لوگ مخصوص انداز کیساتھ آئے اور وہاں انہوں نے اپنا اعلان بھی الگ کیا اور سب کچھ عراق میں کیا۔ انہیں بنایا شام میں گیالیکن انہوں نے اظہارِ وجود عراق میں آکر کیا۔ شام میں انکا نام تھا داعش۔ داعش کا مطلب ہے دولت ِاسلامی عراق و شام۔ جونہی یہ عراق کے اندر آئے انہوں نے اپنا نام بدل کر دولت ِاسلامی رکھ دیا، ‘عراق و شام’ بیچ میں سے کاٹ دیا اور فوراً ہی عالمی خلافت کا اعلان کردیا۔
ابو بکر البغدادی کا پسِ منظر:
ان دہشت گردوں کے سرغنہ ابو بکر بغدادی سے متعلق آج سارے حقائق کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ یہ وہ شخص وہ ہے جو باقاعدہ طور پر ایک عرصے تک اسرائیل میں تربیت لیتا رہا ہے۔ ابوبکر بغدادی بھی اسکا اصل نام نہیں ہے۔ یہ اسرائیل میں تربیت لیکر آیا ہے جسکے باقاعدہ ثبوت، تصویریں اور سب کچھ آج سامنے آگیا ہے۔ یہ کوئی افواہ یا سنی سنائی بات نہیں بلکہ ٹھوس بات ہے کہ یہ شخص اسرائیل میں باقاعدہ تربیت لیکر آیا ہے۔ اِسکو خلیفہ بنایا، پھر خلیفہ بناکر اُنہوں نے عالمی خلافت کا اعلان کیا اور سب سنی مسلمانوںکو دعوت دی کہ اسکی بیعت کریںچونکہ وہ اُنہی کو مسلمان کہتے ہیں۔ تکفیری اپنے علاوہ سب کو کافر کہتے ہیں جس میں سنی اور شیعہ سب شریک ہیں۔
انہوں نے دھمکی دی کہ سارے انکے ہاتھ پر بیعت کریں ورنہ ختم کردئیے جائیں گے۔ انکے حق میں حکم ِاسلامی لاگو ہوگا اور وہ حکم ِاسلامی یہی ہے کہ انکی گردن کاٹ دو۔ کچھ روز قبل انہوں نے شام میں تقریباً ڈیڑھ سو سنی مسلمان عورتیں اور بچے ذبح کئے ہیں۔ یہ گروہ پیدا کیا گیا، اسے عراق لایا گیا اور عراق لانے تک انہوں نے اپنا اصل حُلیہ چھپا کر رکھا۔ جب عراق میں آئے تو انہوں نے کھل کر اپنا اظہارِ وجود کیا۔
سیاہ لباس اور سیاہ پرچم:
عراق میں ہی یہ کام ہونا ضروری تھا، اسکا ایک پس ِمنظر ہے۔ کسی اور تجزیے میں اسکی جانب اشارہ ہو گا اور تفصیلی حالات بیان کئے جائیں گے انشاء اللہ کہ جو کچھ یمن میں ہورہا ہے اور جو کچھ عراق میں ہو رہا ہے انکی کڑیاں آپس میں کیسے ملتی ہیں لیکن جو آپ، ہم اور پاکستانیوں سے مربوط ہے اور پاکستان کے شیعہ و سنی سے جس چیز کا ربط ہے وہ یہ نکتہ ہے کہ آپ انکا حُلیہ دیکھیں، یہ سیاہ لباس میں ہیں اور سیاہ پرچم لے کر آئے ہیں۔ سیاہ پرچم کے اوپر جو انہوں نے اپنا لوگو (logo) بنایا ہے اُس لوگو کو غور سے دیکھیں تو اس میں تین نام موجود ہیں: اللہ، رسول اور محمدۖ لیکن یہ لکھے ہوئے نہیں ہیں بلکہ اگر غور سے دیکھیں تو یہ سٹیمپ یا مُہر کی شکل بنی ہوئی ہے جس طرح پرانے زمانے میں انگوٹھی یا خاتم ہوتی تھی اور انگوٹھی کے اوپر کوئی نام لکھا ہوتا تھا اور مہر کی جگہ وہی انگوٹھی لگاتے تھے۔ انگوٹھی کو خاتم اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ مہر بھی اسکے اندر ہوتی تھی۔ اس زمانے میں بھی بعض علماء ہیں جن کی مہر اُنکی انگوٹھی میں ہی ہوتی ہے۔ انگوٹھی کے اوپر انکا نام لکھا ہوتا ہے اور اسی کو روشنائی یا پیڈ کیساتھ لگا کر کاغذ پر لگا دیتے ہیں، یہ مہر ہوتی ہے۔
اِنہوں نے جھنڈا بنایا اور بیچ میں جو مقدس نام لکھے ہوئے ہیں یہ کتابت کئے ہوئے یا پرنٹ کئے ہوئے نہیںہیں جس طرح عام لکھائی ہوتی ہے بلکہ اسکو غور سے اگر دیکھیں تو جو رسم الخط ہے وہ مہُرکا ہے کہ گویا مہر لگی ہوئی ہے۔ لباس سیاہ، پرچم سیاہ اور خلافت کا اعلان! اُسکے ہم زمان ابھی پاکستان میں طالبان نے اپنا نام بدل دیا ہے۔ پہلے یہ تحریک ِ طالبان تھے اور ابھی یہ تحریک ِ خراسان ہوگئے ہیں، اپنا نام خراسان رکھ لیا ہے۔
لشکرِ خراسانی:
اس سیاہ لبا س اور سیاہ پرچم کا پس ِمنظر یہ ہے کہ شیعہ اورسُنی ہر دو کی روایات میں ہے کہ آخر الزمان میں ایک شخصیت ظہور کریں گے جن کا نام اہل ِ سنت کتابوں میں بھی اور شیعہ کتابوں میں بھی مشترک ہے یعنی مہدی آخر الزمان۔ شیعہ کے نزدیک امام مہدی  ـ دنیا میں آچکے ہیں اور ابھی پردۂ غیبت میں ہیں۔ اہل ِسنت کے ہاں وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے اور اُنہیں آخر الزمان میں پیدا ہونا ہے، کچھ چیزیں پھر آگے ملتی جلتی ہیں۔ اسلئے وہ کہتے ہیں مہدیٔ موعود اور شیعہ کا نظریہ ہے مہدیٔ موجود یا مہدیٔ حئی یعنی مہدی زندہ ہیں۔
اہلِ سنت کہتے ہیں کہ امام مہدی  ـ ابھی پیدا نہیں ہوئے اور بعد میں یا آخر الزمان میں پیدا ہوں گے۔ جب مہدی آخر الزمان آئیں گے تو وہ آکر پوری دنیا پر اسلام کی حکومت اورنظامِ اسلامی قائم کریں گے لیکن اُنکی حکومت سے پہلے چند معرکے ہوں گے۔ مہدی ٔآخر الزمان کی آمدسے پہلے چند معرکے ہوں گے اور اُنکے آنے کیلئے جو میدان ہموار کرنا ہوگا اس میں دو بڑے لشکر پیدا ہوں گے: ایک لشکر ِ سفیانی پیدا ہوگا اور ایک لشکر ِخراسانی ہو گا۔ بعض جگہ اُسکو لشکر ِیمانی کہا گیا ہے، شیعہ روایات میں زیادہ لشکر ِیمانی ہے، اہل ِسنت کی روایات میں زیادہ لشکر ِ خراسانی ہے۔
شیعہ روایات میں لشکر خراسانی نہیں ہے بلکہ لشکر یمانی ہے لیکن ایک شخصیت پیدا ہوگی وہ ہیں سیدِ خراسانی۔ ایک سید اور آلِ رسولۖہوں گے، یہ پیدا ہوں گے، لشکر بنائیں گے اور سفیانی پہلے آئیگا۔ اُس سفیانی لشکر کا مقابلہ کرنے کیلئے خراسانی سید کی قیادت میں لشکر بنے گا جسے لشکر ِ خراسان کہا جائیگا۔ روایات میں دونوں لشکروں کی علامتیں ذکر کی گئی ہیں۔ رسول اللہ  ۖ سے بھی یہ روایات منقول ہیں اور باقی ائمہ ہدیٰ  ٪و بزرگانِ دین سے بھی یہ روایات ہیں۔ اس وقت پاکستان سے باہر یہ بحث شدت سے جاری ہے لیکن پاکستان میں میڈیا کی سنسنی کی برکت سے ذہن آسودہ ہیں۔
پاکستانی اپنے ذہنوں کو اِن بحثوں میں نہیں الجھاتے۔ بسا اوقات اِکا دُکا جوانوں کے مطالعے میں کوئی چیز آجاتی ہے تو وہ تشویش کا شکار نظر آتے ہیں لیکن باقی سارے آسودہ اور اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں اور انتظار میں ہیں کہ بجلی کب آئیگی اور کب جائیگی۔
اندازوں اور گمان پر بنایا گیا دین اور وقت ِظہور:
یہ بات اس وقت شیعہ و سنی دونوں تفکرات میں سب سے زیادہ تشویشناک بات بن گئی ہے۔ شیعہ اس موضوع میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ یہ وہی زمانہ آگیا ہے اور ظہور نزدیک ہونیوالا ہے۔ کیوں ظہور نزدیک ہونیوالا ہے؟ اسلئے کہ لشکرِ یمانی اور لشکر ِسفیانی دونوں آ گئے ہیں۔ یہ بات قارئین کو تشویش میں مبتلا کرنے کیلئے نہیں کی جارہی، صرف یہ بتا یا جارہا ہے کہ جو کچھ آپکے زمانے میں ہورہا ہے اُسکا پس ِمنظر کیا ہے، یہ کس چیز کا نتیجہ ہے اور ایسے کیوں ہورہا ہے؟
شیعہ اس وقت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ سید ِخراسانی رہبر ِمعظم کو کہتے ہیں چونکہ رہبر ِمعظم سید علی خامنہ ای (دام ظلہ العالی) خراسان کے ہیں۔ آپ مشہد کے رہنے والے ہیں اور مشہد خراسان میں ہے لہٰذا شیعہ اس بات سے مطمئن ہیں کہ یہ سیدِ خراسانی ہے۔ اس کیلئے جتنی بھی روایات تھیں وہ ساری انہوں نے اِدھر اُدھرسے جمع کرکے رہبرِ معظم پر لاگو کر دی ہیں کہ سید ِخراسانی ہیں۔ اب لشکر ِ سفیانی کونسا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ یہی امریکہ لشکر ِسفیانی ہے۔ اُسکو بھی کسی طرح بہرکیف اُنہوں نے سفیانی ثابت کر دیا ہے۔ انسان جب ثابت کرنے پر آئے تو پھر کر ہی دیتا ہے اور کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ سفیانی اور رہبر ِمعظم سیدِ خراسانی ہیں اور آخری نبرد شروع ہوگئی ہے اور اسکے بعد اب ظہور ہونا ہے چونکہ روایات میں ہے کہ پہلے سفیانی آئیگا، یہ تباہی مچائیگا اور اتفاقاً روایات میں یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ سارا معرکہ شام میں ہوگا یعنی شام کی طرف سفیانی آئیگا اور لشکر ِخراسانی بھی شام میں جاکر اُسکا مقابلہ کریگا اور پھر اسکے بعد یہ لشکر کوفہ، عراق کا رُخ کریگا۔ یہ باتیں صرف موجودہ صورتحال سے آگہی کیلئے بیان کی جارہی ہیں، ان پر ایمان نہیں لے آنا اور مشوّش بھی نہیں ہونا، اصل ماجرہ کچھ اور ہے۔ ہم یہاں ذہنیتیں بتا رہے ہیں کہ اس وقت یہ ذہنیتیں ہیں اور یہ کڑیاں آپس میں کیسے ملاتے ہیں۔ تاریخ میں جو روایات ہیں اُنکو اِن حالات کیساتھ کیسے جوڑتے ہیں؟
دنیا کے خاتمے کی غلط پیشن گوئیاں:
کچھ افراد اس مکتب اور فکر کی باقاعدہ ترویج کررہے ہیں کہ بس نوکریاں چھوڑو، اپنے سارے معاملات سمیٹو کہ عنقریب ظہور ہونیوالا ہے۔ جہاں کہیں پیسے رکھے ہوئے ہیں وہ سارے نکلوا لو تاکہ وہیں پھنسے نہ رہ جائیں۔ بعض لوگوںنے یہ کام کیا بھی ہے، اپنی فیکٹریاں بیچ کر بکریاں خرید لیں کہ ظہور قریب ہونیوالا ہے۔ شیعوں نے یہ کام کیا ہے۔
پہلے اعلان ہوا کہ ٢٠٠٨ میں ظہور ہونیوالا ہے، وہ کسی وجہ سے کینسل ہوگیا، اسکے بعد کہا کہ ٢٠١٢ میںاینڈ آف ہسٹری (تاریخ کا اختتام) ہے۔ مایہ تہذیب والوں کی جنتری میں لکھا ہوا تھا کہ ٢٠١٢ میںدنیا ختم ہوجائیگی اور قیامت آجائیگی (Mayan Apocalypse)۔ انہوں نے کہا قیامت سے ایک دن پہلے یعنی ٢١ دسمبر ٢٠١٢ کو دنیا ختم ہوجائیگی اور اگلے دن ظہور ہوجائیگا اور تیاریاں کرلی گئیں۔ یہ اسی طرح کے ٹوٹکے جمع کرکے اور حدث و گمان اور اندازے لگا کر سارا دین ہی اندازوں پر بنایا ہوا ہے جبکہ دین قرآن، روایات اور ائمہ  ٪کی تعلیمات میں موجود ہے، اُسے نہیں پڑھتے اور اپنے اندازے اور تُک بندی کرتے ہیں۔
روایات میں ظہور کا وقت معین کرنیوالے کی مذمت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ظہور کا وقت معین کرنیوالے کذاب و ملعون ہیں یعنی جھوٹے اور ملعون ہیں جو یہ کہیں کہ فلاں دن یا فلاں سال ظہور ہوگا۔
طالبان نے اپنا نام تحریک ِطالبانِ پاکستان یا افغانستان سے تبدیل کرکے تحریکِ طالبانِ خراسان رکھ دیا ہے کیونکہ اُنکی کتابوں میں بھی یہ تعلیمات ہیں کہ لشکرِ خراسانی آئیگا جو لشکر ِسفیانی سے لڑیگا، اُسے شکست دیگا اور دجال کو شکست دیگا۔ دجال ہر دور میں مسلمانوں کے اوپر ایک معمہ رہا ہے۔
معمۂ دجال:
رسول اللہ  ۖ مسجد النبیۖ میںدجال کی صفات بتا رہے تھے اور اُس میں رسول اللہ  ۖ نے بتایا کہ دجال کی ایک آنکھ ہوگی اور وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا۔ اُسی وقت جب رسول اللہ  ۖ درس فرما رہے تھے باہر سے بدقسمتی سے ایک ایسا ہی بندہ گزرا اور رسول اللہ  ۖ کے ایک بڑے جوشیلے صحابی جو عموماً طیش میں آجاتے تھے انہوں نے کہا یا رسول اللہ! یہ دجال ہے اور آپ مجھے اجازت دیں میں اسکا سر قلم کردوں اور سارا فتنہ ختم کردوں۔ رسول اللہ  ۖ نے فرمایا کہ غور نہیں کیا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ رسول اللہ  ۖ نے فرمایا اگر یہ دجال ہے تو تُو اسکا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا چونکہ یہ آخر الزمان کیلئے آیا ہے اور فتنہ بنے گا اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو غریب کو کیوں مارتا ہے؟ جب میدان ہوتا ہے وہاں تجھے طیش نہیں آتا اور یہاں میرے سامنے بیٹھ کر جوش دکھاتا ہے!
دجال کا فتنہ ہوگا، سفیانی لشکر آئیگا، اس سب کو شیعہ موجودہ حالات پر لاگو کرکے نتیجہ لیتے ہیں۔ رہبرِ معظم چونکہ خراسان کے ہیں لہٰذا کہا کہ یہی سید ِ خراسانی ہیں۔ شام میںجنگ ہورہی ہے تو کہا یہی وہ جنگ ہے۔ عراق میں یہ گروہ آگیا تو کہا یہی سفیانی لشکر ہے۔ جو واقعہ ہوجائے کہتے ہیںظہور کی ایک علامت پوری ہوگئی اور ابھی تک یہ ظہو ر کی علامتوں کا چارٹ کئی دفعہ بھرچکا ہے اور پھر دوبارہ نئے سرے سے گننا شروع کیا چونکہ دین چھوڑ دیا، مذہب چھوڑ دیا اور تُک بندی اور اندازوں کو مذہب بنا لیا ہے۔ دوسری طرف یہ ماجرہ نہیں ہے۔
خراسان کی حدود اربعہ:
قدیم خراسان کے اندر چند ملک آتے ہیں: آدھا ایران، آدھا پاکستان، پورا افغانستان، ترکمانستان، آذربائیجان، تُرکی کا کچھ حصہ اور عراق، یہ سب خراسان کہلاتا ہے۔ یہ عصر ِخلفاء یا بنو عباس کے زمانے کا خراسان ہے۔
بنو عباس کے خلیفہ ہارون الرشید نے خراسان کو اپنا پایۂ تخت بنایا اور پھر اسکے بعد اُنکے بیٹوں نے اور پھر کرتے کرتے بعد کے خلفاء آئے، اُنہوں نے بغداد کو بنا دیا لیکن شروع میں خراسان اُنکا مرکزتھا، مشہد یا طوس اُسکا پایہ تخت تھا جہاں ابھی امام رضا  ـکا مزار و قبر ِاطہر ہے۔ ہارون الرشید پہلے دنیا سے چلا گیا، اُسکو وہاں دفن کیا گیا اور مامون نے جبراً امام کو ہارون کے پہلو میں دفن کروایا۔ انہوں نے خراسان کو اپنا مرکز بنایا۔
خُراسان سے متعلق روایات کی حقیقت:
خراسان کے بارے میں یہ باتیںبنو عباس کے زمانے میں پھیلائی گئیں۔ خراسان کی مرکزیت، محوریت، خراسان پرستی و خراسان پسندی کو بنوعباس نے بطور مکتب بنایا، پھیلایا اور باقاعدہ طور پر اسکی ترویج کروائی کہ خراسان محور ہوگا اور آخر الزمان میں خراسان کے حالات عالم ِاسلام پر اثر انداز ہوں گے۔ انکی کتابوں میں درج ہے کہ مہدیٔ موعود کی آمد سے قبل خراسان کا لشکر ہوگا جسکے جھنڈے، لباس اور دستاریں سیاہ ہونگی اور یہ لشکر اتنا خوفناک ہوگا کہ اسے جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ لوگ اسکی دہشت سے ہی مرجائینگے، وہ موت کو گلے لگا لیں گے، بھاگیں گے، دریاؤں اور سمندروں میں کودیں گے۔
اُنہوں نے یہ لشکرِ خراسان بنایا، اِدھر سے طالبان بھی لشکر ِخراسان بن گئے اور اب شعیب ابن صالح اس لشکر کا کمانڈر ہوگا۔ اب یہ ابوبکر بغدادی کو شعیب ابن صالح بنانا چاہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے شیعوں نے یہ کام کیا اور احمدی نژاد کو شعیب ابن صالح بنایا اور کہا کہ یہ شعیب ابن صالح ہے۔ یہ شخص ابو بکر بغدادی جو اسرائیل میں پلا بڑھا ہے اور جس نے اسرائیل سے تربیت لی ہے، اسے شعیب ابن صالح کا لقب دیا ہے کہ یہ وہ سیاہ پوش شخص ہے جو سردار ہے، اسکا عَلم کالا ہے اور انکے جھنڈے کے اندر جو مہر ہے وہ نشانی ہے جیسا کہ روایات میں درج ہے۔ انہوں نے یہ لشکر مہدیٔ موعود کیلئے تیار کیا ہے۔ مہدیٔ موعود مکہ میں آئیں گے اور یہ لشکر علاقے فتح کرتا ہوا یہ عَلم اُن کے ہاتھ میں دیگا پھر اسکے بعد مہدی نبرد کریں گے اور باقی ماندہ ظالمین کو ختم کریں گے۔ یہ اس اعتقاد کے تحت اور اس حُلیے کیساتھ شام میں تیار ہوکر عراق آئے ہیں چونکہ روایات میں یہی زمینیں لکھی گئی ہیں کہ ان زمینوں پر لشکرِ خراسانی اُٹھے گا، کوفہ کا رُخ کریگا، دہشت و وحشت پھیلائیگا، یہ اُسکا جھنڈا ہوگا، ایسی اُسکی دستار ہوگی، روایات میں پڑھ کر جو وہاں لکھا تھا وہی اُنہوں نے حلیہ بنا لیااور اب مہدویت کیلئے میدان ہموار کرکے لشکر ِخراسانی بنا رہے ہیں۔ خراسانی ظہورِ مہدی کیلئے تیاری کا نام ہے۔
تشیع اور سرمایۂ مہدویت کی ناقدری:
شیعہ کو اپنے اُس سرمائے کی قدر نہیں تھی۔ تشیع کے پاس چودہ سو سال سے مہدویت، عالمی حکومت اور نظامِ الٰہی کا نظریہ موجود ہے لیکن اس نظرئیے کو نہ پڑھا، نہ پھیلایا، نہ بتایا، نہ تبلیغ کی اور نہ ترویج کی۔ اگر مہدویت کی طرف آئے بھی تو اسے ایک افسانہ بناکر آئے، امام کو گرین لینڈ برمودا جاکر بٹھا دیا، کسی جگہ چھپا دیا اور ڈھونڈنا شروع کردیا یا ملاقاتوں کے ڈرامے شروع کردئیے اور اس طرح سے درآمد کمانا شروع کردی۔
حقیقتِ مہدویت:
مہدویت اللہ کے نظام کے غلبے کا نام ہے۔ مہدویت نظامِ ولایت و امامت کے عالمی رخ و عالمی رنگ اختیار کرنے کا نام ہے لیکن اس نظام کی طرف حرکت ظہورِ مہدی سے نہیں ہوگی۔ ظہورِ امام مہدی اس مرحلے کی تکمیل کا نام ہے۔ اس کا آغاز تب ہوگا جب اما م مہدی کے ماننے والے اور امامت کے پیروکار میدان میں آکر پرچم ِولایت و امامت قریہ قریہ بلند کریں اور اُن پرچموں کو آپس میں منسلک کریں، اس سے پہلے تکمیل کا مرحلہ ہرگز نہیں آئیگا۔ ائمہ اطہار ٪میں سے ہر ایک زمینہ ساز اور نظامِ امامت و ولایت کیلئے میدان ہموار کرنیوالے ہیں۔ پوری دنیا اور پوری زمین پر نظامِ ولایت کا نفاذ ظہورِ امام مہدی سے ہوگا لیکن ظہور ِامام مہدی کی طرف حرکت ائمہ  ٪کے دور میں شروع ہوئی۔ سید الشہداء  ـ کا قیام درحقیقت اسی ظہور کی طرف اُٹھنے والا قدم ہے۔
ظہورِ امام مہدی کاحسینی کلیہ:
امام حسین  ـ نے فارمولا بتا دیا کہ امام ِ مہدی  کب آئیں گے؟ آپ  نے امام ِمہدی کا نام نہیں لیا لیکن امامت کو عنوان قرار دیکر کلیہ بتا دیا کہ امام کسی شہر میں کب وارد ہونگے اور نظام ِ امامت کب آئیگا؟ امام فرماتے ہیں کہ اے میرے نمائندے مسلم! تیرے جائے بغیر کوفہ نظامِ امامت کی طرف رخ نہیں کریگا، یہ کسی طاغوت کیساتھ مل جائیگا، آلِ ابی سفیان کا پیروکار ہوجائیگا اور کسی اور کو خلیفہ مان لے گا۔ اگر تُو جائے اور کوفیوں کا رخ امامت کی طرف موڑ دے تو ممکن ہے کوفی امامت کی طرف آجائیں۔ تُو نے جاکر کیا کرنا ہے؟ انکا ناتا آلِ ابی سفیان سے کاٹنا ہے اور امامت کے سلسلے سے رابطہ جوڑنا ہے اور اگر تُو دیکھے کہ یہ میری اطاعت پر اکٹھے ہوگئے ہیں تو جلدی
فعجل لی بالخبر
تو جلدی مجھے باخبر کرنا تاکہ میں اُسکے مطابق اقدام کرسکوں۔
امام  یہ نہیں فرما رہے کہ حسین ابن علی اور مسلم ابن عقیل کا قانون یہ ہے کہ مسلم ابن عقیل کوفہ کو تیار کرے تاکہ حسین کوفہ کا رخ کرے بلکہ حسین ابن علی یہ بتا رہے ہیں کہ میں تیرا امام اور تُو امامت کا نمائندہ ہے، نمائندۂ امامت کا کام یہ ہے کہ طاغوت سے رابطہ کاٹ کر امامت سے رابطہ جوڑ دے اور پھر اسکی خبر اپنے امام کو پہنچائے تاکہ امام اُس شہر کا رخ کرسکے۔
وہ ہستی جو پردۂ غیبت میں ہے یہ اُسکا فارمولا بتا رہے ہیں کہ کب ظہور ہوگا؟ ظہور سفیانی و یمانی کے آنے یا امریکہ کو سفیانی کہنے یا کسی اور علامت سے نہیں ہوگا بلکہ ظہور کا صرف ایک فارمولا حسین ابن علی نے بتا دیا ہے
انی موجھک الی اہل الکوفہ
آیاآج کوئی اہل ِکوفہ کی طرف جانے اور سفیر ِحسین ونمائندۂ امامت بننے کیلئے تیار ہے؟ امامت کا پیغام سرکش شہروں کے اندر سنانے کیلئے کوئی تیار ہے؟ امامت کا پیغام عبید اللہ ابن زیاد جیسے ظالم حکمرانوں کے درمیان کوئی سنانے کیلئے تیار ہے؟ کوفہ جیسے شہر میں کوئی جاکر ندائے امامت بلند کرنیوالا ہے؟

ظہورِ امام مہدی کیلئے ہر شہر میں ایک مسلم ابن عقیل کی ضرورت:
ظہورِ امام تب ہوگا جب اس وقت کے ہر شہر کا مسلم اپنے امام کو خبر دے کہ یہ لوگ تیار ہوگئے ہیںاور میں نے انکو تیار کردیا ہے۔ آپ  نے مجھے کہا تھا یہ کام میرا فریضہ ہے، پس میں نے انکو تیار کیا ہے۔ یہ لوگ اکٹھے ہوگئے ہیں اور انہوں نے امامت کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے، انکا ناتا آلِ ابی سفیان سے ٹوٹ گیا۔
فعجل لی بالخبر
کوفی امام ِحسین کو کہہ رہے ہیں عجل عجل اور امام ِ حسین اپنے نمائندے کو کہہ رہے ہیں فعجل فعجل۔ کوفیوں کی بیعت و اطاعت کی خبر جلدی پہنچاتاکہ ظہورِ امامت ہوجائے۔
عراق میں نظامِ امامت سے دوری:
مہدویت اور نظامِ الٰہی کا متاع تشیع کے پاس تھا، تشیع نے اسے نہیںپڑھا اور دوسری مصروفیات، رسومات اور متبادل سرگرمیاں ڈھونڈ لیں، اپنے لئے من گھڑت و خود ساختہ مذہب بنا لیا اور امامت کے نظام کی بات کرنا ہی چھوڑ دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جس عراق میں اتنے شیعہ ہوں، جس عراق میں مزارِ حسین  ـ ہو، جس عراق میں مزارِ علی ابن ابی طالب  ٪ ہو، جو سرزمین ِامامت ہو، جسکے ہر شہر پر ایک گنبد ہے اور وہ گنبد بتا رہا ہے کہ یہ امام کے مزار کا گنبد ہے، یہ بتا رہا ہے کہ یہ سرزمین امامت کیلئے ہے لیکن اُس سرزمین پر رہنے والے ہر چیز کا نام لیتے ہیں سوائے امامت کے۔ اُسی سرزمین ِ امامت پر آکر لشکر کا بننا اور خراسانی نام رکھنا اور لباسِ خراسانی پہننا اور جھنڈے اُٹھانا اور پھر یہ کہنا کہ ہم اُس ظہور کی طرف حرکت کررہے ہیں اور شعیب ابن صالح یہ پرچم اپنے ہاتھ سے جاکر مہدیٔ موعود کے ہاتھ میں دیگا۔
کتنی افسوسناک بات ہے! یہ صورتحال اُس سرزمین کی ہے جہاں ہزار سال حوزۂ علمیہ رہا، جہاں مزارِ اقدسِ حسین ابن علی  ٪ ہے، جس سرزمین سے متعلق تمام ائمہ  ٪نے شیعوں اور مسلمانوں کو کہا کہ کربلا کی زیارت کرو۔ زیارت صرف حاجتیں اور خواہشیں مانگنے کیلئے نہ کرو بلکہ ندائے حسین ابن علی  ٪ سننے کیلئے زیارت کروکہ حسین ابن علی  ٪ تمہیںکیا کہنا چاہتے ہیں، وہ تمہاری کچھ ماموریت لگا رہے ہیں اور وہ ماموریت یہ ہے
اُدعو الناس الی طاعتی وخذلہم علی آلِ ابی سفیان
امام حسین  ـ فرماتے ہیں کہ میری حسرت ہے، اے کاش! میں مہدیٔ آخر الزمان کا ایک سپاہی ہوتا۔ امام ِحسین  ـ کی آرزو ہے۔ فرماتے ہیں کہ اے کاش! میں امام ِمہدی کے لشکر کا ایک سپاہی ہوتا۔
مؤثر اور متأثر شخصیات:
شخصیات دو طرح کی ہوتی ہیں۔ کچھ شخصیات ایسی ہیں جو لوگوں کے اوپر مؤثر اور اثر انداز ہوتی ہیں اور کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو لوگوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ عوام سے متاثر ہونیوالے بھی مشہور ہوجاتے ہیں جو عوام سے ڈرتے بھی ہیں اور عوام کی خوشنودی اور رضا کیلئے بہت کچھ کرتے ہیں یعنی عوام زدہ لوگ۔ یہ شخصیات درحقیقت موثر نہیں ہوتیں اور عوام کو کوئی رُخ یا جہت نہیں دے سکتیں۔ یہ عوام سے متاثر ہوتے ہیںاور ہر وہ کام کرتے ہیں جو عوام چاہتے ہیں اور عوام سے اپنی مرضی کا کوئی کام نہیں کروا سکتے۔ اگر عوام ہنسنا چاہیں تو یہ ہنسا دیتے ہیں، اگر عوام رونا چاہیں تو یہ رُلا دیتے ہیں۔ یہ عوام سے متاثر ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس وقت عوام کا موڈ کیا ہے اور عوام کیا چاہتے ہیں؟ جس طرح تھیٹر میں اسٹیج شو ہوتا ہے، اس میں اداکار آتے ہیں اور آکر دیکھتے ہیں کہ آج عوام کا موڈ ہنسنے کا ہے تو وہ طنزیہ باتیں شروع کردیتے ہیں۔ جیسے ابھی پاکستانی میڈیا اور ٹی وی چینلز ہیں۔
ٹی وی چینلز پر جُگت بازوں کا راج:
پاکستانی ٹی وی چینلز نے تمام بھانڈ، میراثی اور جُگت بازوںکو میزبان یا اینکر بنا دیا ہے۔ مذہب پر تبصرہ ہوتا ہے تو بھی جُگت باز بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس وقت مقابلہ ہے اور سب سے زیادہ کامیاب چینل وہ ہے جس پر بہت بڑا میراثی یا جُگت باز بیٹھا ہوا ہے جو ہر چیز کی جُگت بناتا ہے، سیاست کی جُگت بناتا ہے، مذہب کی جُگت بناتا ہے اور سنجیدہ ترین مسائل کی جُگت بناتا ہے۔
پاکستان کی سرحدوں کا ناامن ہونا!
ابھی پاکستان اور بھارت کی سرحد پر معاملات خراب ہیں۔ اس کیلئے ہونا یہ چاہئے کہ ایسے افراد آئیں جو عوام کو اصل ماجرہ بتائیں کہ بارڈر پر یہ ہلچل کیوں ہے اور ناگہاں یہ سب کچھ کیوں شروع ہوگیا ہے، یہ بڑا اہم سوال ہے۔ افغان بارڈر پر جنگ ہورہی ہے، پاکستان کی پوری تاریخ میں ایران پُرامن بارڈر تھا، تاریخ ِ ایران و پاکستان میں یہ بارڈر کبھی ناامن نہیں ہوا لیکن اب اُس پر بھی جنگ منڈلا رہی ہے اور ایک دوسرے پر گولہ باری شروع ہو رہی ہے۔ انڈیا کے بھی پاکستان کے اوپر حملے شروع ہوگئے ہیں۔ یہ قوم کیلئے ایک اہم سوال ہے کہ یہ سب کیوں ہوا اور بیٹھے بٹھائے تینوں بارڈر کیوں ناامن ہو گئے ہیں۔ ابھی صرف چین کی سرحد پر کچھ نہیں ہوا، ممکن ہے وہاں پر بھی چند دنوں بعد کچھ شروع ہوجائے۔
ملک کے اندر دھرنے اور بلوے اور سرحدوں پر فائرنگ کا تبادلہ کیوںہو رہا ہے؟ یہ دنیا کیلئے ایک اہم و سنجیدہ سوال ہے اور ساری دنیا اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ آپ سرچ کرلیں کہ نیوز ایجنسیز اور عالمی تجزیہ نگار پوری سنجیدگی کیساتھ اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں محو ہیں کہ پاکستانی سرحدیں ہم زمان یعنی ایک ساتھ کیوں ناامن ہورہی ہیں، کیوں گولہ باری شروع ہوگئی، کیوں یہاں سے ایران میں تجاوز شروع ہوگیا ہے، کیوں انڈیا ایک دم بپھر گیا ہے، کیوں افغانستان کے بارڈر پر ہلچل ہے اور کیوں چائنہ پریشان بیان دے رہا ہے؟
اس صورتحال میں پاکستانی چینل اگر کھول کر دیکھیں تو وہاں ہر جُگت باز بیٹھا ہوگا جوہنسانے کیلئے فائرنگ کی جُگت بنا رہا ہے۔ عوام بھی ساری بیٹھتی اور بڑے شوق سے سنتی ہے۔
ہماری مجالس کا حال:
چاہے جشن ہو، میلاد ہو یا سوگ، اگر کوئی سنجیدہ آدمی گفتگو کررہا ہو تو کہتے ہیں یہ خشک ہے، اسکی بات سمجھ ہی نہیں آرہی، پتہ نہیں کیا کہہ رہا ہے! لیکن اگر کوئی بھانڈ آکر بیٹھ جائے اور جُگت بیان کرنا شروع کرے، جو کبھی اِدھر کی طرف اِشارہ کرے اور کبھی اُدھر کی طرف اشارہ کرے، کبھی اِس پر حملہ کرے، کبھی اُس پر حملہ کرے، ایک چُٹکی اِسکو بھرے، ایک چُٹکی اُسکو بھرے، آنکھوں سے بھی چُٹکیاں بھرے اور زبان سے بھی حملے کرے تو کہتے ہیں زبردست! کیا بہترین مجلس پڑھی ہے، آج تو انہوں نے ایسی کی تیسی کر دی۔ یہ پاکستانی عوام کا مزاج ہے حالانکہ پاکستانی عوام دنیا کی سب سے زیادہ مصیبت زدہ عوام ہے۔ سب سے زیادہ مصائب انکے اوپر ٹوٹ رہے ہیں، سب سے زیادہ پریشانیاں انکے ہاں ہیں، مادی نعمتوں سے محروم، روزمرہ زندگی کے وسائل سے محروم، بلب آن کرتے ہیں تودس ہزار روپے کا بِل دروازے پر پڑا ہوتا ہے، انہیں سمجھ نہیں آتی کہ یہ پچیس واٹ کا بلب آخر کتنی بجلی کھاتا ہے! پوری دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہورہا۔ گیس کا کنکشن نہیں لیا لیکن بل آگیا۔ اخباروں میں آئے دن یہ لطیفے آتے رہتے ہیں، یہ اس ملک کی صورتحال ہے۔
پاکستانی کو کیسا ہونا چاہئے؟
دنیا میں سب سے زیادہ سنجیدہ ملت ِپاکستان کو ہونا چاہئے، سب سے زیادہ جِد اس قوم کے اندر ہو کیونکہ اسکا المیہ، مشکل اور مسائل دوسروں سے زیادہ ہیں۔ دوسروں کے پاس لطیفوں، جُگت، تفریح اور انٹرٹینمنٹ کا وقت ہے لیکن پاکستانی کیلئے نہیں ہے۔ انہیں چاہئے کہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور ان مسائل کا جواب تلاش کریں کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے، کیوں پاکستان بارود کا ڈھیر ہے، کیوں پاکستان میں دہشت گردی ہے، کیوں پاکستان میں ہر جگہ پر مسلح گروہ و لشکر بن گئے ہیں، کیوں پاکستان کی سرحدیں ناامن ہیں، کیوں پاکستانی پاسپورٹ جرم کی سند سمجھا جاتا ہے؟ یہ سنجیدہ ترین موضوعات ہیں لیکن چینل پر انہی موضوعات کے بارے میں جو طبقہ بیٹھ کر تجزیہ کررہا ہوتا ہے وہ انتہائی نامناسب طبقہ ہے جن کو اس مسئلے کے بارے میں اظہار نہیں کرنا چاہئے، یہ پاکستان کیساتھ تمسخر ہے۔
ہمارے سیاستدانوں کے حال:
سیاست میں بھی ایسے ہی لوگ آجاتے ہیںجو ایک دوسرے کے بارے میں بیان دیتے ہیں اور عوام بڑی خوشی سے سنتی ہے۔ کوئی کسی کو کیا تمسخر آمیز لقب دے رہا ہے، دوسرا کسی کو کیا لقب دے رہا ہے اور عوام سُن رہی ہے، یہ آپکے سیاستدان ہیں! پاکستانیوں کا المیہ زیادہ ہے۔ یہ منفعل اور عوام زدہ شخصیات ہیں لیکن کچھ لوگ ہوتے ہیں جو عوام پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور عوام کو متاثر کرسکتے ہیں۔
متاثر کُن و موج ساز شخصیات:
پاکستان میں ایسے افراد موجود ہیں جو عوام کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ہر شعبے کے اندر ایسے لوگ ہیں جو لوگوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ان شخصیات میں جو لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کچھ افراد لوگوں کے جذبات اور احساسات کو متاثر کرتے ہیں۔ امیر المومنین  ـ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں کہ انبیاء  ٪کو اللہ نے اسلئے مبعوث کیا ہے کہ لوگوں کی عقلوںکو متاثر کریں۔
”لیثیرو لہم دفائن العقول”
انبیاء کرام  ٪ احساسات اُبھارنیوالے نہیں بلکہ افکار اُبھارنیوالے اور ضمیر جگانیوالے ہیں۔
یہ افراد جو عوام کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور موثر واقع ہوسکتے ہیں اِنکو آج کے علوم یا سیاست کی اصطلاح میں موج ایجاد کرنیوالے افراد کہا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ سویا ہوا، منحرف اور زوال پذیر معاشرہ ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ شخصیات ان معاشروں کے اندر جاکر کوئی موج ایجاد کرسکتی ہیں۔
ہدفِ بعثتِ انبیاء ٪:
خداوند تبارک وتعالیٰ نے گمراہ معاشروں کے اندر ہدایت کیلئے انبیاء  روانہ فرمائے اور اُن انبیاء کے روانہ کرنے اور بھیجنے کے عمل کا نام بعثت رکھا۔ بعثت کا مطلب اُٹھانا، اُبھارنا، حرکت دینا اور تلاطم یا موج پیدا کرنا ہے۔
”ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّنَ رَسُوْلاً…” (سورہ جمعہ، آیت ٢)
اُمّی یعنی ٹھہرا ہوا معاشرہ جومادر زادی حالت پر قائم ہو۔ جس طرح ماں سے پیدا ہوئے، ابھی تک اُسی طرح اور اسی حالت پر رُکے ہوئے ہیں۔
جب ماں سے پیدا ہوئے تو کیا تھے؟
”…اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا…”
                (سورہ نحل، آیت ٧٨)
جب ماں کے پیٹ سے نکلے توتم کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ اب جب ساٹھ سال کے ہوگئے ہو تو بھی کچھ نہیں جانتے پس ابھی تک ویسے ہی مادر زاد حالت پر قائم ہو یعنی کورے کے کورے۔ ماں سے کورے پیدا ہوئے اور ابھی تک کورے ہو، تمہیںکچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اب تمہارے اندر اور تمہارے ماحول میں حرکت پیدا کرنے اور یہ جہالت کا جمود و ضلالت کا سکوت ختم کرنے کیلئے خدا نے ایک شخصیت تیار کی ہے لیکن اُس شخصیت کو مبعوث کیا ہے۔
جناب مسلم ابنِ عقیل  ـ، ایک موج ساز شخصیت:
سید الشہداء  ـ نے جنابِ مسلم ابن عقیل کو انتخاب اسلئے نہیں کیاکہ فقط میرا خط کوفہ پہنچا دو۔ صرف خط پہنچانے کیلئے مسلم ابن عقیل جتنی صلاحیت کے آدمی کی ضرورت نہیں ہے۔ خط تو کوئی بھی لے جا سکتا تھا۔ جیسے فرضی خط آپ منبروں سے بہت سنتے ہیں جو کربلا سے لکھے گئے اور جو کربلا میں پہنچائے گئے۔ یہ خط صرف شاعر کے ذہن میں ہے ورنہ نہ کربلا سے کسی نے کوئی خط بھیجا اور نہ کربلا میں کوئی خط پہنچا۔ چونکہ خیالی کربلا بھی ایک وسیع میدان ہے اور اُسکی زمام شاعر کے ہاتھ میں ہوتی ہے، وہ جدھر چاہے اپنے خیال کا گھوڑا دوڑا دے!
خط پہنچانے سے قوم حرکت میں نہیں آتی۔ نہضتِ حسینی کو ڈاکیا اور کورئیر سروس نہیں، بلکہ مسلم ابن عقیل چاہئے۔ مسلم ابن عقیل نے کیوں معذرت کی کہ مولا، مجھے معاف کردیں کسی اور کو بھیج دیں! چونکہ وہ جانتے تھے کہ ماموریت کیا ہے! فقط خط نہیں پہنچاناتھا۔ مسلم ابن عقیل سمجھتے تھے کہ نہضتِ حسینی کا دارومدار کوفہ کی حرکت پر ہے جو میں نے ایجاد کرنی ہے۔ سید الشہداء  ـ کے انقلاب و قیام کا دارومدار اس حرکت کے اوپر ہے۔ یعنی اس وقت وہ کلیدی شخص میں ہوں اور سارا دارومدار اس پر ہے۔ اگر میں نے یہ کام کر دکھایا، میں کوفہ پہنچا، کوفیوں کو جگا دیا، کوفیوں کو بھڑکا دیا، کوفیوں کو اُٹھا دیا، کوفیوں کو جہت و سمت دے دی اور کوفیوں کا رُخ آلِ ابی سفیان سے موڑ کر امام  کی طرف موڑنے میں کامیاب ہوا پھر تو میری ماموریت انجام پاگئی لیکن اگر میں نہ پہنچ سکا، اگر یہ ماموریت انجام نہ پائی تو یہ عظیم انقلاب میری وجہ سے کہیں رُک نہ جائے، کہیں مشکل کا شکار نہ ہوجائے۔ یہاں جنابِ مسلم  نے انکساری دکھائی کہ مولا! اگر کوئی مجھ سے بہتر ہے تو اس اہم ماموریت پر اُسکو بھیج دیں جو جاکر کوفہ میں موج ایجاد کرسکے۔
پاکستان میں مذہبی منافرت کی موج کا سبب:
کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر موج ایجاد کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہاں ہم ذرا منفی کاموں کی مثالیں دیتے ہیں تاکہ قارئین بہتر سمجھ سکیں کہ ہم کیا بیان کرنا چاہ رہے ہیں، اس وقت کس چیز کی ضرورت ہے اور یہ مسلم ابن عقیل کا کردار کتنا اہم ہے جو قیامِ امام حسین  ـ کے مکی مرحلے کا ایک اہم حصہ ہے۔
پاکستان میں ہی بہت ساری مثالیں ہیں جہاں پر لوگ معمول کے مطابق زندگی بسر کر رہے تھے۔ پاکستان میں مذہبی دنیا معمول کے مطابق اپنے اپنے مذہب و مسلک کے مطابق امور میںلگے ہوئے تھے۔ شیعہ، سُنی، بریلوی، دیوبندی ہر ایک اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے، غرض سارے اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ اس دوران آپس میں اس بناء پر مذہبی تنازعہ بھی ہوتا تھا کہ ایک مسلک کو دوسرے مسلک کی کوئی بات پسند نہیں آئی، اِنکو اُنکی کوئی رسم پسند نہیں آئی، اُنکو اِنکی کوئی ادا پسند نہیں آئی، اس بناء پر ایک دوسرے سے بسا اوقات اُلجھ بھی جاتے تھے لیکن محدود سطح پر اور جہاں کوئی اُلجھاؤ ہوتا اُسی گلی میں ہی معاملہ اُٹھتا بھی اور وہیں پر ختم بھی ہوجاتا، کبھی بھی اس نے ملکی حالت اختیار نہیں کی تھی۔
اس معمول کی مذہبی دنیا میں جہاں سب کا رسوماتی مذہب تھا، شیعہ اپنی رسومات میں، سنی اپنی رسومات میں، بریلوی اپنی رسومات میں، دیوبندی اپنی رسومات میںمصروف تھا یعنی ہر ایک اپنے اپنے مذہب میں لگا ہوا کام کررہا تھا۔ دوسرے کو کبھی کبھار جیسے بعض کی عادت ہوتی ہے کہ گزرتے گزرتے کسی کو چٹکی بھی بھر دیتے تھے۔ اِسکی مسجد سے اُسکے خلاف، اُسکی مجلس سے اِسکے خلاف بات ہو جاتی تھی۔ بعض اس پر تحمل کرلیتے تھے، بعض اوقات تذکر دے دیتے تھے، بسا اوقات تھوڑا سا مسئلہ بنتا جو تھانے پولیس تک جاتا یا بڑے بزرگ بیٹھ کر معاملے کو رفع دفع کرلیتے لیکن ناگہاں ضیاء الحق کے دور میں صورتحال بدل گئی۔
پاکستان 25 سال پہلے:
جوانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ پہلے پاکستان کی یہ صورت نہیں تھی۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے یہ صورتحال نہیں تھی جو آج ہے۔ پہلے سب مسلمان شیعہ و سنی آپس میں ایک رواداری کیساتھ رہتے تھے۔ مجالس میں سُنی آتے تھے، شیعہ اُنکے محلوں میں رہتے اور آنا جانا ہوتا تھا۔ جس طرح ابھی کاروبار و تجارت میں ہے، مذہب بھی ایسا ہی تھا۔ جس طرح ابھی شیعہ و سنی مل کر کاروبار کررہے ہیں پہلے مذہبی امور بھی اسی طرح انجام دیتے تھے۔
اس وقت بازاروں، دفتروں اورسفر میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ جہازوں میں دونوں بیٹھے ہیں، ٹرین میں دونوں بیٹھے ہیں، منڈی و کھیتوں میں دونوں ہیں، وہاں کوئی مشکل نہیں ہے لیکن مذہب میں آکر مسجدوں، امام بارگاہوں اور مدرسوں میں صورتحال بدل گئی ہے۔ یہ صورتحال کیوں بدلی اور کیسے بدلی؟
ضیاء الحق کا کردار:
ضیاء الحق کے زمانے میں اس صورتحا ل میں ایک تبدیلی آئی، وہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ انہیں احساس ہوا کہ تشیع خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، یہ رسومات سے آگے بھی بڑھ سکتا ہے لہٰذا انکے ذہنوں میں خطرے کی گھنٹی بجی کہ یہ قوم رسومات سے آگے بھی جاسکتی ہے۔ ١١ فروری ١٩٧٩ء کو پوری عرب دنیا، غرب کی دنیا، ایشیاء و مغرب و مشرق میں گھنٹی بجی کہ یہ قوم جو رسومات میں مصروف ہے یہ رسومات سے آگے بھی جاسکتی ہے یعنی انقلابِ اسلامی وقوع پذیر ہوا اور خطرے کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے احساس کیا کہ اس وقت ضرورت ہے کہ اسکو یہیں روکا جائے اور آگے نہ بڑھنے دیا جائے اور جسکو روکنا چاہتے ہیں اس کیلئے دو کام کرتے ہیں۔
عموماًاگر کوئی کسی کی طرف آنا چاہے تو اُسکو عام محاوراتی زبان میں اس طرح منع کرتے ہیں کہ ”اس سے آگے نہیں آنا یا اب ادھر نہیں آنا ورنہ ٹانگیں توڑ دوں گا۔” اگر وہ آنیوالاٹانگوں کی پرواہ نہ کرے تو پھر کہتے ہیں ”میں تیری کمر توڑ دوں گا” اور اگر کمر سے بھی باز نہ آئے تو کہتے ہیں ”میں تیری گردن مروڑ دوں گا” یعنی تدریجاً اوپر آتے ہیں۔ پہلے ٹانگوں کی دھمکی دیتے ہیں، پھر کمر پر آتے ہیں، پھر گردن پر آتے ہیں۔ اگر ٹانگیں توڑنے کی دھمکی سے باز آگیا تو کمر تک نوبت نہیں آئیگی اور اگر کمر توڑنے سے بھی باز نہ آیا تو پھر باری گردن کی بات آجائیگی اور گردن کاٹ دی جائیگی۔ یہ وہ دھمکیاں ہیں جو روزمرہ لوگ دیتے ہیں البتہ عمل نہیں کرتے۔ یہ تو انکی خوبی ہے کہ صرف کہتے ہیں کہ ہم ٹانگیں توڑ دیں گے لیکن توڑتے نہیں ہیں۔ یہاں ہر آدمی کا جی کرتا ہے کہ میں سب کی ٹانگیں توڑ دوں لیکن پھر اپنا جب زور دیکھتا ہے تو اُسے پتہ چلتا ہے کہ میرا اتنا زور نہیں ہے۔ کہیں اُنکی ٹانگیں تڑواتے تڑواتے اپنی کھوپڑی نہ تڑوا لوں لیکن عموماً جاہلیت کے کلچر میں ایسی زبان چلتی ہے اور یہی جاہلیت کا فارمولا تشیع کیلئے استعمال کیا گیا کہ تشیع آگے بڑھ رہا ہے پس اسکی ٹانگیں توڑی جائیں تاکہ اُٹھنے کے قابل نہ رہے۔ ٹانگوں پر حملہ ہو، پھر بھی اُٹھتا ہے تو پھر کمر توڑی جائے اور اگر کمر توڑنے سے بھی باز نہ آیا تو پھر گردن مروڑی جائے۔
ضیاء الحق نے ٹانگیں شکن لشکر بنایا کہ انکی ٹانگیں توڑ دو، اُنہوں نے ٹانگیں توڑنا شروع کیں لیکن دیکھا یہ پھر بھی باز نہیں آتے۔ بات کمر تک آگئی کہ انکی کمر توڑ دو اور دیکھاکمر ٹوٹنے سے بھی باز نہیں آتے تو پھر انکی گردن توڑ دو۔
پاکستان میں شیعہ دشمنی کا آغاز!
اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان میں تشیع کی سرکوبی کے عمل کا آغاز کہاں سے ہوا؟ اب انہیں بندے کی تلاش تھی، کون یہ کام کرے؟ یعنی کون بندوق چلا سکتا ہے، کون گن چلا سکتا ہے، کون کلاشنکوف چلا سکتا ہے، کون گرنیڈ پھینک سکتا ہے؟ یہ کام تو ہر ایک کرسکتا ہے۔ ضرورت ایک ایسے شخص کی تھی جسکے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ وہ معمول اورروٹین میں بیٹھے ہوئے مسلمان یا ایک مسلک کے اندر جس میں ٹھہراؤ ہے، جسکے احساسات، جذبات، افکار اور سوچوں میں سکون ہے، وہ شخص انکی سوچ میں موج، حرکت اور تلاطم پیدا کرے۔ اس کیلئے انہیں باصلاحیت آدمی چاہئے جو تقریریں کرے، غصہ دلائے اور ہر حربہ استعمال کرے تاکہ انہیں خوب تپائے، بھڑکائے اور نفرت و کینہ پیدا کرے اور یہاں تک لے آئے کہ ہر فرد خنجر بدست، شمشیر بدست، بندوق بدست اور بندوق بردار بن جائے اور حملے کرنے کیلئے تیار ہوجائے۔
ایسا شخص جو پاکستان کے خاموش معاشرے اور رواداری کے ماحول میں نفرت کا طوفان و نفرت کی موج پیدا کرے اور انہوں نے وہ موج ساز انسان ڈھونڈ لیا۔ صلاحیت والے لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر مختلف صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ آخرکار اُنہیں وہ بندہ مل گیا اور اُس نے یہ کام شروع کیا، اُسے باقاعدہ تلاش کیا گیا تھا۔ یہ مثال صرف مذہبی دنیا کی دی گئی ہے ورنہ ہر میدان میں ایسا ہی ہوا ہے۔ سیاسی دنیا میں بھی ایسا ہوا، قومیت کے میدان میں بھی ایسا ہوا اور علاقائیت میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ماہرین نے ہر اُفق پر جاکر ایسا بندہ تلاش کیا ہے جو لوگوں کے اندر نفرت، کینے اوردشمنی کی لہر پیدا کرسکے اور یہ لہر کامیابی سے پیدا کردی گئی۔ خاموش سمندر کے اندر نفرت کی کنکری پھینکی گئی اور اُس نفرت کی کنکری سے لہر اُٹھی اور پھیلتے پھیلتے اس نے پورے پاکستان کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ موج ساز ی کی منفی مثالیں ہیں۔
برصغیر میں مغرب پرستی کی لہر:
تاریخِ برصغیر سے موج سازی کی ایک اور مثال دی جا سکتی ہے۔ یہاں انگریز آئے اور ہندوستان پر مسلط ہوئے، برصغیر پر قبضہ کیا، اپنی سلطنت قائم کی، لوٹ مار کی اور پھر چھوڑ کر چلے گئے۔ پہلے اِدھر خدمت کرواتے رہے، پھر کہا کہ اب ہم اپنے گھر جارہے ہیں، تم وہاں ہمارے پیچھے آؤ لہٰذا ابھی کسی بھی انگریز کے بوٹ پالش کرنے کیلئے بڑے بڑے لوگ اور بڑی بڑی شخصیات تیار ہی، انہیں صرف ویزہ دے دو! سب سیاستدان اور لیڈر وہاں بیٹھے ہوتے ہیں۔ دھرنوں میں ذرا سا وقفہ ہوتا ہے فوراً وہاں پہنچتے ہیںاور چارج ہوکر پھر آجاتے ہیں۔ علماء وہاں جا پہنچتے ہیں، عوام وہاں جا پہنچتے ہیں، پڑھے لکھے اور دانشوروہاں جا پہنچتے ہیں، ہر طبقہ اس جنت کا مشتاق و عاشق ہے۔
انگریزوں کو ہندوستان پر حکومت کرنے کیلئے مغرب نوازی کی موج پیدا کرنے کی ضرورت تھی کہ یہاں مغرب پرستی کی شدید قسم کی لہر پیدا کی جائے۔ ایسی شدید لہر جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ اس کیلئے انہوںنے بندوں کی تلاش شروع کی کہ کون یہ کام کرسکتا ہے۔ بڑے بڑے مغرب پرست نواب تھے لیکن اُنکے اندر یہ صلاحیت نہیں تھی جو ہمارے نواب و مخدوم اور انگریزوں کے چاکر تھے۔ مخدوم اُسکو کہتے ہیں جسکی خدمت کی جائے یا جو خدمت کروائے۔ یہ سب انگریزوں کے خادم تھے جبکہ اپنی قوم کے مخدوم بن گئے۔ انکے اندر انگریز پرستی کی موج ایجاد کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ انکے اندر ایک اور صلاحیت ہے کہ یہ اُٹھی ہوئی موج سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں لیکن لہر پیدا نہیں کرسکتے اور مغرب پرستی، انگریز پرستی و یورپ پرستی کی لہر نہیں دوڑا سکتے۔
مغرب پرستی کی موج ایجاد کرنے کیلئے انہوں نے ایک اور بہت باصلاحیت شخص ڈھونڈا یعنی سر سید احمد خان اور وہ کامیاب ہوگئے۔ یہ باصلاحیت شخص، اس میں صلاحیت کیا تھی؟ اس شخص کا کمال یہ ہے کہ اس نے ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں کے دلوں میں مغرب نوازی کی لہراور موج پیدا کی ہے چونکہ کسی بھی راستے کی رکاوٹ کو ہٹانے کیلئے موج اور لہر کا اُٹھنا ضروری ہے۔ اگر یہ لہر نہیں اُٹھتی تو آپ سے معمولی سا تنکا بھی نہیں ہِلتا۔ نہضت اسی لہر اور موج کا نام ہے۔ عربی زبان میں اسکو نَہضة، فارسی تلفظ میں نِہضت اور انگریزی زبان میں موومنٹ (Movement)  کہتے ہیں۔ امیر المومنین  ـ فرماتے ہیں جب میں نے اقتدار سنبھالا
”فلما نھضت بالأمر”
میں نے ابھی قیام ہی کیا تھا اور ابھی اُٹھا ہی تھا کہ میرے مقابلے میں تین لشکر سامنے آگئے: مارقین، قاسطین اور ناکثین۔ پس نہض اُٹھنے کو کہتے ہیں۔ موج کی طرح اُٹھنا نہضت ہے اور موج پیدا کرنے کو نہضت کہتے ہیں۔
غلبے کا قانون:
موج پیدا کرنے کیلئے موج ساز رہبر کی ضرورت ہوتی ہے جو معمولات، کھیتی باڑی، دکانداری، تعلیم و تعلم اور اپنے معمولات میں مگن لوگوں کو زندگی کے معمولات سے نکال کر اُنکے دلوں کے اندر تڑپ، موج اور لہر پیدا کرے۔ غلبے کا قانون ہے کہ جو بھی یہ موج پیدا کرنے میں کامیاب ہوا میدان اُسکا ہے اور قوم اُسکی ہے۔ جو موج پیدا نہیں کرسکا وہ حسرت میں رہیگا۔ دشمن نے موج پیدا کرنیوالے لیڈر ڈھونڈ لئے اور اُنہوں نے بھرپور طریقے سے تشیع، پاکستان اور پاکستانی ملت کیخلاف اپنی صلاحیتوں کا ثبوت دیا۔ سید الشہداء  ـ نے قیام کیا اور نہضت شروع کی کیونکہ طاغوت گرانا تھا۔ طاغوت گرانے کیلئے لہر، موج، طوفان اوراُمت کی حرکت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُمت کی باتوں اور صلواتوں سے کبھی طاغوت نہیں گرتا۔ طاغوت اُمت کی حرکت سے گرتا ہے۔ اگر ذرے پھٹ جائیں اور اُن میں موجود طاقت آزاد ہوجائے تو وہ پہاڑوں کو بھی اپنے راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔ خداوند تبارک و تعالیٰ نے اپنی طاقت ایٹمی ذروں میں نہیں رکھی بلکہ اللہ کی ساری کی ساری طاقت کا مرکز اللہ کا ارادہ ہے کہ خدا جب بھی اپنی قدرت و طاقت کا ارادہ کرنا چاہتا ہے
”…اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ” (سورہ یس، آیت ٨٢)
خدا اُسکے بارے میں ارادہ کرتا ہے اور جونہی اللہ ارادہ کرتا ہے وہ شئے وجود میں آجاتی ہے، اللہ کی قدرت کا راز اللہ کے ارادے میں ہے اور اللہ نے اپنے ارادے کا مظہر انسان کا ارادہ بنایا ہے۔ اللہ کی طاقت انسان کے ارادے میں جمع ہے اور انسان کے ارادے کے اندر سمٹ کر آگئی ہے۔ اللہ کی طاقت کا مظہر ایٹم نہیں، انسان کا ارادہ ہے لیکن انسان کے ارادے کے اوپر کبھی شہوت، کبھی وحشت، کبھی خوف، کبھی ڈر، کبھی لذت اور کبھی خواہشات طاری ہو جاتی ہیں اور یہ ملبہ اس طاقت کو دبا دیتا ہے۔ یہاں ایک ایسے شخص کی ضرورت پڑتی ہے جو انسانی ارادے کے اندر چھپی ہوئی الٰہی طاقت کو آکر بھڑکائے، اس ٹھہرے ہوئے سمندر میں آکر موج پیدا کرے لیکن موج پیدا کرنے کیلئے سب سے بڑی طاقت اُسکے اپنے ارادے میں ہونی چاہئے۔ موج ساز رہبر اپنے ارادے سے عوام کے ارادے کے اندر موج پیدا کرتا ہے۔
سید الشہداء  ـ نے نِہضت کیلئے مسلم ابنِ عقیل کی صورت میں رہبر چُنا۔ باقی جگہوں پر پیغام رسان بھیجا لیکن کوفہ کیلئے موج پیدا کرنیوالا رہبر بھیجا۔ فرمایا اے مسلم! تیرے دو کام ہیں: لوگوں کا تعلق آلِ ابو سفیان سے توڑنا اور امامت سے اسکا تعلق جوڑنا، یہ ماموریت ِ مسلم ابن عقیل ہے۔
مسلم ابن عقیل پر رونیوالے! تجھے پتہ ہونا چاہئے کہ مسلم ابن عقیل کی ماموریت حسین  ـ کی نہضت کا سہارا ہے۔ جب مسلم ابن عقیل نے اظہار کیا کہ شاید مجھ سے اتنا بڑا کام نہ ہو سکے اور اگر کوئی مجھ سے زیادہ باصلاحیت تر ہے تو وہ میدان کے اندر آجائے، اس وقت امام نے فرمایا کہ اس وقت میرے پاس تجھ سے زیاد ہ باصلاحیت شخص موجود نہیں ہے، جہاں بھیجا ہے وہیں چلے جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو۔
مسلم کامیاب ہوئے۔ انہوں نے اٹھارہ ہزار کا لشکر بنایا اور کوفہ کاناتا آلِ ابی سفیان سے توڑ دیا۔ جبکہ آج بھی اُمت ِاسلامی کا ناتا آلِ ابی سفیان سے جڑا ہوا ہے۔ آج بھی کربلا کو مسلم ابن عقیل کی ضرورت ہے چونکہ نہضتِ حسینی ختم نہیں ہوئی، تحریک ِکربلا ختم نہیں ہوئی اور طاغوت آج بھی موجود ہے۔ اگر ان گزشتہ چودہ صدیوں میں نہضتِ حسینی کو مسلم مل جاتے تو مقصدِسید الشہداء  ـ حاصل ہوجاتا۔
ظہورِ امامت کب ہو گا؟
حسین ِ زمان کب آئیں گے؟ جب مسلم ِزمان دو کام کردیں۔ اوّل امت کاآلِ ابی سفیان سے ناتا کاٹ دیں اور دوّم امام سے ناتا جوڑ دیں۔ اگر یہ خبر حسین ِزمان کو ملی تو حسین ِزمان کوفہ ضرور آجائیں گے لیکن اگر ایسے نہ ہوا تو حسین کوفہ نہیں آئیں گے۔ امام حسین  ـ کوفہ نہیں گئے کیونکہ یہ کام نہیں ہو پایا۔ مسلم نے تو اپنا کام کردیا، موج ایجاد کردی اور اپنا حق ادا کردیا لیکن کوفی قابل ِبھروسہ اور پائیدار نہیں نکلا۔ حسین  نے کوفہ میں قدم نہیں رکھا اور اب قیامت تک حسین کا قدم کوفہ میں نہیں پڑیگا کیونکہ وہاں ناپائیدار ملت ہے۔
مکی بیدار نہیں، کوفی پائیدار نہیں:
امام حسین  ـ نے حجاز چھوڑ دیا چونکہ حجاز میں بیدار ملت نہیں ہے اور کوفہ میں قدم نہیں رکھا اور راستہ موڑ لیاکیونکہ کوفہ میں پائیدار و وفادار قوم موجود نہیں ہے۔
یہاں سے ہم دیکھیں کہ امام ِوقت بارہ سو سال سے میرے شہر میں کیوں قدم نہیں رکھتے؟ ہم جو اتنی التجائیں کرتے ہیں، ہم جو اتنا العجل العجل کہتے ہیں تو امام کیوں نہیں آتے؟ اُسی وجہ سے نہیں آتے جس وجہ سے امام حسین  ـ مکہ چھوڑ دیتے ہیں کہ مکہ بیدار نہیں ہے اور کوفہ میں نہیںجاتے چونکہ کوفہ وفادار نہیں ہے۔ بارہ سو سال سے امام ِزمانہ کوانہی دو چیزوں کا انتظار ہے۔ یہ انتظار تب ٹوٹے گا جب مسلم ِزمان پیدا ہونگے۔ مسلم ابن عقیل جب میدان میں آئے، کوفہ کا رنگ بدلے، کوفی عادتیں بدلیں، آلِ ابی سفیان سے نا تے تڑوائے، طاغوت سے انکے رشتے کاٹے اور یہ سے رشتے کاٹ کر امامت سے تعلق جوڑے پھر اُسکے بعد حسین اور فرزند ِحسین آنے کیلئے تیار ہیں۔ امام  اسلئے غائب نہیں ہوئے کہ سفیانی نہیں ہے، یمانی نہیں ہے اور عبداللہ نہیں ہے اور فلاں نہیں ہے! حسین کوفہ اور کوفیوں میں نہیں آتا۔ پہلے کوفیوں میں مسلم پیدا ہو، پھر کوفی مسلم کیساتھ وفاداری کریں تاکہ حسین قدم رکھے۔
آلِ ابی سفیان سے ناتا توڑو! یہ تو نہیں ہوسکتا کہ مجلسیں بھی کرائیں، حسین کو بھی روئیں، مسلم ابن عقیل کو بھی روئیں، مصائب بھی سنیں اور آلِ ابی سفیان سے بھی رشتے منسلک ہوں۔
تقدیرِ مسلم ابن عقیل:
مسلم بہت عظیم کردار ہے اور یہی نہضتِ حسینی کا آغاز ہے۔ انقلابِ کربلا و عاشورا مسلم کے کردار سے شروع ہوتا ہے۔ مسلم یعنی حسین کے ورود کیلئے میدان ہموار کرنیوالا، موج ایجاد کرنیوالا، اُمت کا رُخ بدلنے والا، آلِ ابی سفیان سے ناتا کاٹنے والا اور ولایت و امامت سے رشتہ جوڑنیوالا اور یہ بھی توجہ رہے کہ اگر لوگ کوفی ہوئے اور شہر کوفہ ہوا تو مسلم کی تقدیر یہ ہے کہ ہر مسلم کسی دارالامارہ پر ذبح کردیا جائیگا۔ اگر العجل العجل کہنے والے کوفی و بیوفا نکلے تو مسلم کی تقدیر یہ ہے کہ دارالامارہ پر اُسکا سر قلم کردیا جائے اور حسین  صحرائے کربلا میں پہنچ جائے و تشنہ شہید کردیا جائے۔
عصرِ انتظار کا مفہوم:
عصر ِانتظار سے مراد عصرِ نظارہ نہیں لیکن شیعہ صرف نظارے میں مصروف ہوگیا ہے۔ انتظار حرکت کا نام ہے، انتظار اپنے مولا کو خبر دینے کا نام ہے کہ ہم تیار ہوگئے، یہ شہر تیار ہوگیا، اب تشریف لائیے لیکن ایسا نہ ہو کہ جب وہ نازنین تشریف لے آئیں، کسی شہر کے مسلم کا خط اُسکو مل جائے، کسی جگہ استغاثہ مل جائے، العجل العجل کی آواز سن کر وہ آجائے اور اُس شہر کے دوراہے پر آکر اُسکو خبر ملے کہ میرا مسلم دار الامارہ پر شہید کردیا گیا ہے اور وہاں سے پھر اپنا راستہ بدلنے پر مجبور ہوجائے، یہ تکرار نہ ہو۔ جب وہ امام آجائے تو اُسکو راستہ بدلنا نہ پڑے۔
آج کا شجاع ترین و شیر مرد: آیت اللّٰہ شیخ النمر (حفظہ اللہ)
اس وقت ہم سب سمجھتے ہیں کہ سید ِقاومت سید حسن نصر اللہ (حفظہ اللہ) سب سے بہادر و شجاع انسان ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سید ِ مقاومت سب سے بہادر و شجاع انسان ہیں لیکن آیت اللہ شیخ النمر (حفظہ اللہ) بھی بہت منفرد انداز کے دلیر اور شجاع انسان ہیں۔ حضرت شیخ جعفر کاشف الغطاء کبیر ایک بہت بزرگ عالم ِدین اور اُستادِ فقہاء ہیں، اُنہوں نے ایک جملہ سید الشہدائـ کی شجاعت اور دلیری کے بارے میں لکھا ہے اور امیر المومنین  ـ کی شجاعت سے موازنہ کیا ہے۔ وہاں لکھا ہے کہ امیر المومنین  ـ کی شجاعت اپنے میدان میں تھی لیکن سید الشہداء ـ کی شجاعت ایک جدا میدان میں تھی یعنی امیر المومنین کو کہیں بھی پوری زندگی میں سید الشہداء ـ جیسے حالات میں جنگ نہیں کرنا پڑی۔ سید الشہداء  ـ نے جن حالات میںجنگ کی اور خصوصاً آخری جنگ بہت منفرد جنگ تھی۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ سیدِ مقاومت سید حسن نصر اللہ بہت شجاع انسان ہیںلیکن شیخ نِمر کی شجاعت ایک بہت منفرد میدان میں ہے۔ جس نے تنہا دنیا کے خونخوار ترین، خوفناک ترین، ظالمانہ ترین اور درندہ خُو ترین نظام کو ببانگ ِدُہل گلی میں آکر للکارا وہ یہ شیر مرد ہے جو ابھی آلِ سعود کی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے، جسے سزائے موت سنائی جاچکی ہے اور پوری دنیا کے تشیع کا امتحان ہونیوالا ہے۔ اس وقت آپ شجاع ترین شیعہ ہیں۔
سید الساجدین  ـ فرماتے ہیں کہ فرق نہیں پڑتا کہ شیر زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو یا آزاد ہو، وہ ہوتا شیر ہی ہے۔ حقیقتاً عالم کا نام اگر جچتا ہے تو شیخ نِمر کیساتھ جچتا ہے۔ اگر کربلا کی روح کسی شخص کے اندر نظر آتی ہے تو وہ یہی شیر مرد ہے۔ کیا امکان ہے کہ سعودی عرب میں ولایت کا نظام قائم ہوجائے؟ اگر پاکستانی ہوتے تو سعودی عرب کے شیعوں کوہزار توبہ کراتے کہ اِس ملک میں تم ولایت کا نام لے رہے ہو اور طاغوت سے مبارزہ کررہے ہو لیکن اُسی سرزمین کے اوپر یہ شیر مرد نکلتا ہے اور اکیلے اِس فاسق و فاسد، دنیا کی سب سے زیادہ سفاک اورغیر انسانی حکومت کو آکر للکارتا ہے۔ حجاز آج بھی دشمنی ٔ اہل بیت ٪میں اُسی طرح کاربند ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں پڑا۔