امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اخلاقی،عبادی اور سیاسی سیرت پر ایک نظر۔
امام موسی کاظم کی خدا سے ارتباط، لوگوں اور حاکمان وقت کے روبرو ہونے کی روشیں مختلف تھیں۔ خدا سے ارتباط کی روش کو سیرت عبادی، حاکمان وقت اور لوگوں سے ارتباط کی روش کو سیاسی اور اخلاقی روش سے تعبیر کیا گیا ہے۔
عبادی سیرت
شیعہ و سنی منابع کے مطابق امام کاظم ؑبہت زیادہ اہل عبادت تھے۔ اسی وجہ سے ان کے لئے عبد صالح استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض روایات کی بنا پر حضرت امام موسی کاظم اس قدر زیادہ عبادت کرتے تھے کہ زندانوں کے نگہبان بھی ان کے تحت تاثیر آ جاتے شیخ مفید موسی بن جعفر کو اپنے زمانے کے عابد ترین افراد میں سے شمار کرتے ہیں۔ ان کے بقول گریہ کی کثرت کی وجہ سے آپ کی ریش تر ہو جاتی۔ وہ عَظُمَ الذَّنْبُ مِنْ عَبْدِكَ فَلْيَحْسُنِ الْعَفْوُ مِنْ عِنْدِكَ کی دعا بہت زیادہ تکرار کرتے تھے۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الرَّاحَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ الْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسَابِ کی دعا سجدے میں تکرار کرتے۔ یہانتک کہ ہارون کے حکم سے جب زندان تبدیل کیا جاتا تو اس پر خدا کا شکر بجا لاتے کہ خدا کی عبادت کیلئے پہلے سے زیادہ فرصت مہیا کی ہے اور کہتے: خدایا! میں تجھ سے عبادت کی فرصت کی دعا کرتا تھا تو نے مجھے اس کی فرصت نصیب فرمائی پس میں تیرا شکر گزار ہوں۔
اخلاقی سیرت
مختلف شیعہ اور سنی منابع میں امام موسی کاظم کی بردباری[83] اور سخاوت کا تذکرہ موجود ہے۔ شیخ مفید نے انہیں اپنے زمانے کے ان سخی ترین افراد میں سے شمار کیا ہے کہ جو فقیروں کیلئے خود خوراک لے کر جاتے تھے ابن عنبہ نے امام موسی کاظم کی سخاوت کے متعلق کہا ہے: وہ رات کو اپنے ہمراہ درہموں کا تھیلا گھر سے باہر لے جاتے ہر کسی کو اس میں سے بخشتے یا جو اس بات کے منتظر ہوتے انہیں بخشتے۔ اس بخشش کا سلسلہ یہانتک جاری رہا کہ زمانے میں ان کے درہموں کا تھیلا ایک ضرب المثل بن گیا تھا۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ موسی بن جعفر ان لوگوں کو بھی بخشش سے محروم نہیں رکھتے تھے جو انہیں اذیت دیتے تھے۔ جب انہیں خبر دی جاتی کہ فلاں انہیں تکلیف و آزار پہچانا چاہتا ہے تو اس کے لئے ہدیہ بھجواتے۔ اسی طرح شیخ مفید امام موسی کاظم کو اپنے گھر اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کی سب سے زیادہ سعی کرنے والا سمجھتے ہیں۔
امام موسی کاظم کو کاظم کا لقب دینے کی وجہ یہ تھی کہ آپ اپنے غصے کو کنٹرول کرتے تھے۔ مختلف روایات میں آیا ہے کہ آپ دشمنوں اور اپنے ساتھ بدی کرنے والوں کے مقابلے میں اپنا غصہ پی جاتے تھے کہا گیا ہے کہ عمر بن خطاب کی اولاد میں سے کسی نے آپ کے سامنے حضرت علی کی توہین کی تو آپ کے ساتھیوں نے اس پر حملہ کرنا چاہا لیکن امام نے انہیں اس سے روک دیا پھر اس کے کھیت میں اس کے پاس گئے۔ اس شخص نے آپ کو دیکھتے ہی شور مچانا شروع کر دیا کہ کہیں آپ اس کی فصل کو خراب نہ کر دیں۔ امام اس کے قریب ہوئے اور خوش خلقی سے پوچھا کہ اس کھیت میں تم نے کس قدر خرچ کیا ہے؟ شخص نے جواب دیا: 100 دینار۔ پھر پوچھا: اس سے کتنی مقدار فصل حاصل ہوگی؟ شخص نے جواب دیا: غیب نہیں جانتا ہوں۔ امام کاظم نے سوال کیا: کس قدر اندازے کی امید ہے؟ شخص نے جواب دیا: 200 دینار! امام نے اسے 300 دینار دیتے ہوئے کہا: 300 دینار تمہارے لئے ہے اور ابھی فصل تمہارے لئے باقی ہے۔ پھر مسجد گئے۔ اس شخص نے اپنے آپ کو امام سے پہلے مسجد پہنچایا اور امام کو آتے ہوئے دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس آیت کی بلند آواز میں تلاوت کی:اللَّه أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِ‌سَالَتَهُ خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔[ انعام–۱۲۴
بشر حافی نے مشائخ صوفیہ کا مرتبہ حاصل کرنے کے بعد آپ کے کلام اور اخلاق سے متاثر ہو کر توبہ کی۔
سیاسی سیرت
بعض منابع کہتے ہیں کہ امام تعاون نہ کرنے اور مناظروں جیسے ذرائع کے ساتھ خلفائے بنی عباس کی حکومت کے ناجائز ہونے کو بیان کرتے اور اس حکومت کی نسبت لوگوں کے اعتماد کو کم کرنے کی کوشش کرتے۔
بشکریہ: شیعہ ویکی پیڈیا۔
ترتیب: محمدجان حیدری۔