اہم خبریںبین الاقوامی خبریں

مزاحمتی لیڈر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری: کٹھن مراحل سے سینیٹ کےایوان تک

وحدت نیوز نیٹ ورک (آرٹیکل)پاکستان کی سیاسی اور مذہبی تاریخ میں چند شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے ہمیشہ اصولوں کو مفاد پر ترجیح دی، اور ہر مشکل گھڑی میں عوامی حقوق کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہوئے۔ انہی میں ایک درخشندہ نام سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا ہے، جن کی پوری زندگی مزاحمت، استقامت اور اصولی سیاست کی روشن مثال ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کا قیام سے پہلے کچھ رفقا نے 2008 میں پاکستان میں دہشتگردی اور دیگر قومی حقوق کے لئے جدوجہد شروع کی۔
ابتدا ہی سے قومی حقوق کی جدوجہد میں مصروف علامہ ناصر عباس جعفری اور ان کے رفقاء نے محسوس کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ قومی سطح پر ایک منظم، اصولی اور مزاحمتی جماعت کی تشکیل دی جائے۔ چنانچہ 2اگست 2009 کو شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی برسی کے موقع پر عظیم احتجاجی اجتماع میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا اعلان کیا گیا اور علامہ ناصر عباس جعفری کو عبوری سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ بعد ازاں 4 اپریل 2010 میں وہ پہلی مرتبہ باقاعدہ سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اور پھر مسلسل ہر پارٹی الیکشن میں بھاری اکثریت سے اعتماد حاصل کرتے رہے۔

علامہ ناصر عباس جعفری کی جرات مندانہ قیادت کی سب سے بڑی جھلک 10 جنوری 2012 کو کوئٹہ علمدار روڈ دھماکے کے بعد سامنے آئی، جب ان کی قیادت میں ہونے والے ملک گیر دھرنوں نے حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیا اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کو برطرف ہونا پڑا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پوری قوم نے محسوس کیا کہ ایک نڈر اور اصولی لیڈر سامنے آ چکا ہے۔

اسی طرح 2013 کے سانحہ عاشورہ راجہ بازار میں انہوں نے اہلسنت علماء کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر فرقہ وارانہ فسادات کی سازش کو ناکام بنایا، جس کی بعد ازاں تصدیق خود آئی ایس پی آر نے ایک پریس کانفرنس میں بھی کی۔

پنجاب کے بدنامِ زمانہ ماڈل ٹاؤن سانحے میں جب خواتین سمیت 14 بے گناہ افراد شہید ہوئے، علامہ ناصر عباس جعفری نے ڈاکٹر طاہر القادری کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر کارکنان کا حوصلہ بلند رکھا۔ وہ خود بھی لاٹھی چارج اور شیلنگ کے دوران سڑک پر موجود رہے جبکہ اکثر رہنما گاڑیوں میں محفوظ بیٹھے رہے۔ یہی وہ عمل تھا جس نے ان کی قیادت کو عوامی سطح پر ایک سچے مزاحمتی لیڈر کے طور پر منوایا۔

اسی استقامت کا تسلسل اس وقت دیکھنے کو ملا جب انہوں نے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف 87 روزہ بھوک ہڑتال کر کے نئی تاریخ رقم کی۔ ان کی اس قربانی نے کئی قومی مسائل کے حل کی راہیں کھولیں۔

بلوچستان اسمبلی کی نشست جیت کر وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی شیعہ مذہبی جماعت کی نمائندگی ایوان میں لے گئے۔ بعد ازاں تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اتحاد رہا 2018 الیکشن مل کر لڑا۔اور حکومت بنائی۔سانحہ مچھ پر تحریک انصاف کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے اور ایک دوسرے سے دور ہوگئے۔مگر جب عمران خان صاحب کی حکومت کو گرانے کی سازش ہوئی ۔بہت سے اختلافات کے باوجود جب عمران خان کی حکومت گرانے میں بیرونی سازش آشکار ہوئی، تو علامہ ناصر عباس جعفری ایک مرتبہ پھر ڈٹ کر عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔

2024 کے انتخابات میں انہوں نے نہ صرف زبانی حمایت دی بلکہ عملی طور پر میدان میں اتر کر تحریک انصاف کے امیدواروں کے لیے ووٹ مانگے۔ جب امیدوار روپوش ہو گئے، تب مجلس وحدت مسلمین کے کارکنان نے ان کی کمپین کو زندہ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی امیدواران نے کامیابی یا ناکامی کے بعد علامہ ناصر اور ان کی جماعت کا شکریہ ادا کیا۔

ایوانِ بالا کی آواز
عمران خان کی ذاتی دلچسپی سے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی موجودگی کا لوہا منوا لیا۔ ایسے وقت میں جب عمران خان کا نام لینا جرم سمجھا جاتا تھا، انہوں نے جلسہ عام میں اسٹیبلشمنٹ کو للکار کر کہا:
“کیا آپ خدا بن بیٹھے ہیں کہ عمران خان کا نام لینا بھی گناہ ہو گیا ہے؟”
یہ دوٹوک الفاظ ان کی جرات، ایمانی بصیرت اور اصولی سیاست کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

قومی رہنما کی پہچان
سینیٹر بننے کے بعد ان کی خطابت اور استدلال نے انہیں مزید مقبول بنایا۔ وہ جمہوریت کو عزت دیتے ہیں، آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور ہمیشہ واضح کرتے ہیں کہ حاکمیت صرف خدا کی ہے، لہٰذا کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔ آج وہ صرف ایک مذہبی رہنما نہیں بلکہ قومی سطح کے مزاحمتی قائد ہیں، جن کا نام ایوانِ سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
یہ ہے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی مزاحمتی جدوجہد، جس میں انہوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ ایسے قائد ہیں جو ذاتی مفاد کے بجائے قومی مفاد اور عوامی حقوق کے لیے ہر قیمت پر آواز بلند کرتے ہیں۔
جرأت، مزاحمت اور استقامت کا دوسرانام راجہ ناصر عباس جعفری ہیں۔

تحریر: ارشاد حسین بنگش

Shares:

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *