تجزیہ نگار: نذر حافی
قائداعظم کے بارے میں ہمارے نگران وزیراعظم صاحب کی غلط فہمی تو دیکھئے۔ انہوں نے محمد علی جناح ؒ کا نام یا عرف، قائداعظم سمجھ لیا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ عرف، تخلص، کنیت، خطاب اور لقب میں کیا فرق ہوتا ہے؟ انہیں یقیناً یہ بھی علم نہیں کہ بابائے قوم اور قائداعظم میں سے لقب کون سا ہے اور خطاب کون سا ہے؟ اگر نہیں جانتے تو ان کے منصب کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں جاننا چاہیے۔ نہ جاننے کا نتیجہ آگے چل کر شاید ان کی توقع کے مزید خلاف نکلے۔خیر وہ جانیں اور ان کے کام، انہیں چھوڑئیے ہم اپنے قارئین کی اطلاع کے لئے عرض کیے دیتے ہیں کہ کسی بھی تنظیم، ادارے یا شخص کی مشترکہ قوت متحرکہ کو نظریہ کہتے ہیں۔ نظریہ یعنی کسی ملت کی مشترکہ قوت متحرکہ۔ اسے آپ کسی قوم کی مشترکہ سوچ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ مشترکہ سوچ جسے ہم نظریہ کہتے ہیں، یہی افراد کو قوم بناتی ہے۔ اگر افراد کے پاس نظریہ یعنی مشترکہ سوچ نہ ہو تو وہ قوم یا ملت نہیں بن سکتے۔
ایسی سوچ، فکر اور عقیدہ جو آپ کو متحد اور متحرک نہیں کرتا وہ آپ کا نظریہ بھی نہیں۔ سوچ اور عقیدہ جب مشترکہ قوت متحرکہ میں بدل جائے تو اسے ہی نظریہ کہتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے اقوال و افکار نے مسلمانان برصغیر کو بغیر کسی رنگ و نسل اور فرقے کی تفریق کے مشترکہ طور پر ایک آزاد اور خود مختار وطن بنانے کے لئے متحد اور متحرک کیا اور آج تک پاکستان کے باسی قائداعظم کے افکار کی وجہ سے ہی بلاتفریق نسل و رنگ اور مسلک، متحد اور متحرک ہیں اور وطن پر قربان ہونے کے لئے ہر لمحہ تیار ہیں۔ پس قائداعظم کے اقوال و فرمودات ہمارے لئے نظریات کا درجہ رکھتے ہیں۔
نظریات کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ عصر حاضر میں برس ہا برس کے جنگی تجربات کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اپنے مخالف انسانوں کو مارنے کے بجائے ان کی قوت متحرکہ یعنی ان کے نظریات کی تبدیلی اور نظریات کا صفایا کرنے پر کام کیا جائے۔ پاکستان میں لوگوں کو قائد اعظم کے نظریات کے خلاف ابھارنا یعنی ان کی مشترکہ قوت متحرکہ کو ختم کرنا ہے۔
اگر لوگ دفاع وطن کے لئے اپنی مشترکہ قوت متحرکہ یعنی جس نظریے پر یہ ملک بنا تھا وہ نظریہ کھودیں گے تو پھر ظاہر ہے کہ اس ملک کو با آسانی توڑا یا تقسیم کیا جا سکے گا۔ پھر صوبوں کو الگ کرتے ہوئے، اور تقسیم فلسطین یا تقسیم کشمیر کو عملی کرتے وقت کوئی قابل توجہ عوامی رد عمل بھی ہر گز سامنے نہیں آئے گا۔ نظریات کو کچلنے سے لوگوں کے جسم اور دماغ آسانی سے مسخر ہوجاتی ہیں۔ لوگوں کی سوچ، ارادے اور نظریات کو تبدیل کرنا کوئی کفر نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنگ ہے۔
آج کی جدید دنیا میں استعماری طاقتوں کی جانب سے ہر ملک کو اس نظریاتی جنگ کا سامنا ہے۔ یہ جنگ سرد اور گرم اسلحے یعنی توپ اور تلوار کے بجائے قلم، کیمرے، تصویر، آواز، بیانیے، تقاریر، تحاریر، بیانات، شعر و شاعری، موسیقی، ٹویٹس، ترانوں اور نغموں جیسے ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے۔ آج ساری دنیا میں توپ اور تلوار کا معرکہ کہیں کہیں جبکہ قلم اور کیمرے کی یلغار ہر جگہ اور ہر لمحے موجود ہے۔
نظریاتی جنگ لڑنے والے افراد بنیادی طور پر تین مقاصد کو اپنے سامنے رکھتے ہیں :
1۔ اپنے نظریے کو کیسے پیش کیا جائے کہ مخالف بھی ہم فکر بن جائے!
2۔ مخالف ہم فکر نہیں بنتا تو کم از کم مخالفت ترک کر دے
3۔ دشمن اگر مخالفت ترک نہیں کرتا تو کم از کم کھل کر مخالفت کرنے کا موقع اسے نہ ملے
پاکستان میں قائداعظم کے نظریات کی مخالفت اور فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات کرنے والے مذکورہ بالا تینوں نکات کی رعایت کر رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کاکڑ صاحب جہاں ”قائداعظم سے اختلاف کفر نہیں“ کہہ کر ایک طرف تو قوم کو قائداعظم سے اختلاف پر ابھار رہے ہیں، اور دوسری طرف وہ کہہ رہے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح کا وژن اور غیر متزلزل عزم ہماری قوم کے لیے مشعل راہ ہے۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آئیے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کو برقرار رکھتے ہوئے قائد کی میراث کی پاسداری کریں۔
یعنی کاکڑ صاحب ہارس ٹروجن تھیوری کو استعمال کرتے ہوئے اپنے نظریے کو قائداعظم کے خلاف ایسے پیش کر رہے ہیں تاکہ مخالف بھی ہم فکر بن جائے، ہم فکر نہیں بنتا تو کم از کم مخالفت ترک کر دے، اور اگر مخالفت ترک نہیں کرتا تو پھر اسے کم از کم کھل کر مخالفت کرنے کا موقع نہ ملے۔
یاد رکھئے! ماضی میں قائداعظم کی مخالفت کا دوسرا نام متحدہ ہندوستان تھا اور آج کے دور میں قائداعظم کی مخالفت کا دوسرا نام فلسطین کا دو ریاستی حل ہے۔ جو لوگ فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات کر رہے ہیں وہ یہ جان لیں کہ محمد علی جناح کا نام قائداعظم نہیں ہے بلکہ وہ حقیقی معنوں میں قائد اعظم ہیں۔ ان کے فرمودات و افکار حقیقی معنوں میں نظریات ہیں، اور ان کے نظریات کے خلاف اعلان جنگ کا مطلب، ملت و ریاست کا شیرازہ بکھیرنا ہے۔