کل یکم جولائی 2024ء کو ہمارے پرانے دوست قلمی استاد ماہر تعلیم فاضلِ محترم قبلہ ڈاکٹر نذر حافی صاحب کی پی ایچ ڈی مکمل ہونے کی خوشی میں ، مجلس وحدت مسلمین پاکستان سیکرٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹر سید شفقت شیرازی صاحب کی طرف سے ان کے اعزاز میں ایک پروقار نشست ان کے موسسہ باقر العلوم قم المقدس میں منعقد کی گئی اور آخر میں پر تکلف عشائیہ دیا گیا۔ جسمیں ہمیشہ کی طرح ،، ان کی محبت،، خاکسار کو بھی مدعو کیا تھا ۔ میں نے محلے کی مسجد میں نماز پڑھی جو عموما دیر سے ختم ہوتی ہے۔ اس لئے میرے پہنچنے تک پروگرام شروع ہوچکا تھا، ڈاکٹر شفقت شیرازی صاحب کی ایک بہت اچھی عادت اور خصوصیت جو میں شروع سے دیکھتے آیا ہوں ( خصوصا طالب علموں کے لئے نمونہ ہے) کہ آپ ہر پروگرام اور میٹنگز میں ہمیشہ مقررہ وقت پر حاضر ہوتے ہیں انتہائی نظم وضبط ان کی زندگی میں واضح طور پر دیکھاجا سکتا ہے ۔ میرے پہنچنے سے پہلے ہی کچھ دوست اپنے حصے کی بات کہہ چکے تھے ۔ اور میرے قدیمی اور تنظیمی دوست قبلہ مختار مطہری صاحب ( آف سندھ) اور میری باری رہ گئی تھی ، خیر نئے دوستوں کے لئے ہمارا مختصر تعارف کے بعد محترم قبلہ ڈاکٹر نذر حافی صاحب کی عالمانہ اور تجربات سے بھرپور گفتگو ہوئی اور آخر میں صدر جلسہ علامہ ڈاکٹر شفقت شیرازی صاحب نے محترم ڈاکٹر حافی صاحب کی مختلف میدانوں میں قلمی اور سیاسی خدمات کی قدردانی کی اور کہا ان کی کمی اور ضرورت تو ضرور محسوس ہوتی رہے گی ۔ دوستوں کی ٹیم کو تلقین اور تاکید کی کہ حد الامکان اس جگہ کو خالی نہیں رہنے چاہئیے۔
آپ نے اہل قلم دوستوں کو میڈیا پر بے بنیاد شبہات کے ازالہ ، زندہ موضوعات اور کرنٹ افئیر پر بروقت لکھنے اور منطقی اور معقول جوابات دینے پر زور دیا۔ حالیہ ایران کے انتخابات پر بھی گفتگو ہوئی ٹرن آوٹ کےکم کی وجوہات بیان کرتے ہوئے آپ نے کہا دنیا کے دیگر ممالک کی طرف بھی دیکھیں تو یہ عوامی شرکت کی نسبت کوئی کم نہیں ہے ۔ خود ہمارے ملک میں شرکت کو دیکھیں وہاں پارٹی بیس پر انتخابات ہوتے ہیں باقاعدہ کنونسنگ ہوتی ہے پیسے چلتے ہیں باقاعدہ ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے پارٹیاں ایڑی چوٹی لگانے کے بعد 30 سے 40 فیصد لوگوں کو گھروں سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ اگر یہ کوششیں، پیسوں کا بے تحاشا استعمال نہ ہو تو ہمارے حکمرانوں کی حالت دیکھ کر شاید 10% بھی عوام ووٹ ڈالنے نہ آئے۔ ایران میں ايسا نظام نہیں ہے یہاں خود لوگ نکلتے ہیں یہاں لوگوں کا سیاسی شعور بہت زیادہ ہے ان کے امیدواروں کے مابین ان کے سیاسی منشور پر مناظرے ہوتے ہیں۔ اور ان میں دئے ہوئے آیندہ کے پروگرامز اپنی علمی اہلیت وصلاحیت ، سماجی خدمات ، سابقہ کارکردگی ، افکار و اخلاق اور قابلیت کے ذریعے لوگوں کو گھروں سے ووٹ ڈالنے کے لئے نکالتے ہیں اور یہ چیزیں دیکھ کر لوگ فیصلہ کرتے ہیں کہ ووٹ کس کو دینا ہے۔ ایران میں پاکستان کی طرح باقاعدہ پارٹی گینگز کا وجود نہیں ۔ ہاں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں اصول پسند اعتدال پسند اور اصلاح پسند وغیرہ۔۔۔دوسری بات یہ ہے کہ ووٹ نہ ڈالنے والے سب انقلاب مخالف نہیں ہوتے کچھ مجبوریوں کی وجہ سے وہ رہ جاتے ہیں۔ اور یہ شدید گرمی کا موسم تھا ، ایام حج و زیارات عرفہ کا موسم بھی تھا’ لاکھوں لوگ ملک سے باہر تھے ۔ کچھ کو افراد کاہلی و سستی اور پسند نہ ہونے کی وجہ سے شاید شرکت نہیں کرتے ۔ ایرانی قوم میں باقی سب اقوام سے زیادہ اپنے نظام پر اعتماد کرنے والی قوم ہے ۔ ایک طرف اس اسلامی نظام کو کمزور کرنے کے لئے دشمنوں کی سازشیں اور جھوٹے پروپیگنڈے ہیں۔ پوری مغربی دنیا پیسہ لگارہی ہے دسیوں مختلف فارسی چینلز پر دشمن کی طرف سے نظام کے خلاف مہم لمبے عرصے سے چلائی جارہی ہے۔ ان کا بھی کچھ نہ کچھ اثر تو ہوگا ۔
ورنہ ملک اور نظام اور انقلاب سے محبت کا اندازہ آپ انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی ریلیوں ، سردار شہید قاسم سلیمانی اور شہید سید ابراہیم رئیسی کے جنازے کے اجتماع سے لگا سکتے ہیں۔ کروڑوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے یہ سب اسلامی نظام اور ان انقلابی شخصیات سے محبت کی بنا پر ہے۔
ایران کے حالیہ انتخابات میں ٹرن آوٹ میں کمی کی وجوہات تحریر🖊️ م ع شریفی
Shares: